عبدالجبار کا شمار سیالکوٹ کی ریلوے روڈ پر کھیلوں کا سامان فروخت کرنے والے بڑے تاجروں میں ہوتا ہے۔ وہ محلہ پریم نگر میں رہتے تھے جہاں شور سے تنگ آ کر انہوں نے اپنی رہائش دوسرے علاقے میں منتقل کر لی۔
ان کا کہنا ہے کہ پرانے محلے میں گھر کے قریب آلات جراحی ایک فیکٹری کی مشینوں کے شور سے ان کا پورا خاندان تنگ تھا۔ وہ خود طبی آلات کی پالش میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی بو سے سانس کے مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کارخانے کو رہائشی علاقے سے باہر منتقل کرانے کیلئے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو کئی بار درخواستیں دیں مگر کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔
سیالکوٹ آلات جراحی اور کھیلوں کے سامان کی تیاری و برآمد کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں گلی محلوں میں ہر طرف کارخانوں میں چلنے والی مشینوں کا شور سنائی دیتا ہے۔
میونسپل کارپوریشن کے مطابق تقریباً آٹھ لاکھ آبادی کے اس شہر میں ایک ہزار سے زیادہ چھوٹی بڑی فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جن میں بیشتر رہائشی علاقوں میں قائم ہیں۔ ان فیکٹریوں میں کھیلوں کا سامان، ڈینٹل سرجری، آرتھو پیڈک اور جنرل سرجری میں استعمال ہونے والے آلات تیار کئے جاتے ہیں۔
حکام کے مطابق رہائشی آبادیوں میں دو سے تین سو فیکٹریاں گزشتہ پانچ سال کے دوران قائم کی گئی ہیں جن کے شور نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
میونسپل کارپوریشن کے چیف افسر محمد اعجاز پندرہ روز پہلے اس علاقے میں تعینات ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون رہائشی آبادی میں کارخانے لگانے کی اجازت نہیں دیتا اور ٹھیکے دار بھی کسی سے اجازت نہیں لیتے تاہم ان فیکٹریوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے لیے کام ہو رہا ہے۔
آواز یں کب شور میں بدلتی ہیں اس کے لیے عالمی سطح پر ایک پیمانہ طے کیا گیا ہے جسے ڈیسیبل کہتے ہیں۔ ڈیسیبل میٹر آواز کے دباؤ کو ماپنے کے کام آتا ہے۔
انسانوں کے لیے 70 ڈیسیبل تک کی آواز قابل قبول مانی جاتی ہے۔
اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک لائبریری میں شور کی سطح 20 ڈیسیبل تک ہوتی ہے لیکن تعمیراتی سائٹ پر یہ شرح 100 اور کارخانوں میں 120 یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
طویل عرصے تک 70 ڈی بی سے اوپر کی آواز سننے سے سماعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سیالکوٹ شہر کے بیشتر رہائشی علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ چھوٹی بڑی فیکٹریاں کام کر رہی ہیں
پاکستان میں ادارہ تحفظ ماحولیات کی ایک رپورٹ کے مطابق شور انسانوں کے لیے ناپسندیدہ، ناخوشگوار اور پریشان کن معاملہ ہے۔ مسلسل شور جھنجھلاہٹ، نیند میں خلل، بلڈ پریشر اور بعض صورتوں میں دل کے امراض کا باعث بنتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے وفاقی اور صوبائی اداروں میں صوتی آلودگی کے خلاف درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن شور کے لیے قومی معیارات کی عدم موجودگی کے باعث یہ ایجنسیاں کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔
شور انسان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے اور خاص طور پر ایسے کاموں میں شور کے اثرات بہت منفی ہوتے ہیں جن میں توجہ اور انہماک کی ضرورت ہو۔
ماہر نفسیات قمر عثمان کہتے ہیں کہ بے ہنگم شور یا صوتی آلودگی نیند میں خلل یا بے خوابی کا باعث بنتی ہے۔ نیند کی مسلسل کمی ہائپرٹیشن سمیت کئی بیماریوں اور خاص طور پر شدید نفسیاتی مسائل کو جنم دیتی ہے جس کا نتیجہ لوگوں میں غصے، چڑچڑے پن، عدم برداشت اور لڑائی جھگڑوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ جن علاقوں میں شور زیادہ ہو وہاں کے بیشتر لوگوں کو سکون آور ادویات کے استعمال اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوتے دیکھا گیا ہے۔
بیس سالہ روما منظور سیالکوٹ کے محلہ محمد پورہ کی رہائشی اور علامہ اقبال گرلز کالج میں بی ایس سی کی طالبہ ہیں۔ ان کے گھر کے پاس بھی ایک شور اگلتا کارخانہ موجود ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مسلسل شور سے ذہنی کوفت ہوتی ہے، سر میں درد رہتا ہے اور وہ ٹھیک سے پڑھ بھی نہیں پا رہیں۔
"جو پڑھتی ہوں وہ بھول جاتا ہے، میں پانچویں جماعت سے ایف ایس سی تک کے امتحانات میں ٹاپ کرتی رہی مگر اب بی ایس سی میں پوزیشن حاصل کرنا تو دور، دو بار فیل بھی ہو چکی ہوں"۔
مسلسل شور جھنجھلاہٹ، نیند میں خلل، بلڈ پریشر اور بعض صورتوں میں دل کے امراض کا باعث بنتا ہے
محمد حمزہ شیخ سیالکوٹ انڈسٹریل زون کے نائب صدر ہیں۔ انہوں نے "سجاگ" کو بتایا کہ سیالکوٹ میں یہ زون شہاب پورہ کے علاقے میں 50 سال پہلے قائم کیا گیا تھا جہاں اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ چنانچہ صنعت کار زون سے باہر نئی فیکٹریاں لگا رہے ہیں۔
حمزہ شیخ نے بتایا کہ سرجری کے آلات کی مینوفیچکرنگ انڈسٹریل زون میں ہی ہوتی ہے اور ان کی فنشنگ ٹھیکے پر کرائی جاتی ہے۔ ٹھیکیدار چھوٹی فیکٹریوں میں ان آلات کی کٹنگ، گرائنڈنگ اور پالش کراتے ہیں جس سے خرچ کی بچت ہوتی ہے۔
"ٹھیکیدار رہائشی علاقوں اور پرانی آبادیوں میں 5 سے 10 مرلے کے گھر خریدتے یا کرائے پر لیتے ہیں اور کٹر، گرائینڈر، روما مشین، جوائنٹ مشین و دیگر مشینری لگا کر کام شروع کر دیتے ہیں"۔
تینتالیس سالہ فاطمہ بشیر تحصیل پسرور کے نواحی قصبہ بن باجوہ میں پیدا ہوئیں۔ والدین نے گریجوایشن کے بعد ان کی شادی سیالکوٹ کے علاقے جناح پارک کے رہائشی محمد بشیر سے کر دی۔
میں والدین کے کھلے صحن والے گھر میں تازہ ہوا اور پرندوں کی میٹھی آوازوں کے ساتھ رہتی تھی۔ میری شادی کو 21 سال ہوگئے ہیں اور جب سے میں سیالکوٹ میں آئی ہوں میرا سکون غارت ہو چکا ہے۔"
ان کے شوہر محمد بشیر 25سال سے روزگار کے لیے دبئی میں مقیم ہیں اور فاطمہ اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ گھریلو ذمہ داریاں بھی سنبھالتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے ساتھ جراحی کے آلات بنانے والی فیکٹری ہے جہاں چوبیس گھنٹے کام ہوتا ہے۔ فیکٹری کی مشینوں کے شور سے پورے خاندان کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔
"میں بے خوابی اور ڈپریشن کی مریضہ بن چکی ہوں۔ اب تو خواب آور دوائیں بھی اثر نہیں کرتیں۔ بچوں کی تعلیم شدید متاثر ہو رہی ہیں، ان میں ضد اور چڑچڑا پن بڑھتا جا رہا ہے، شوہر ملک سے باہرہے، ہم تو گھر بھی نہیں بدل سکتے۔''
یہ بھی پڑھیں
لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر بنانے میں دھواں چھوڑتے کارخانوں اور گاڑیوں کا کردار۔
ڈسٹرکٹ آفیسر ماحولیات وسیم چیمہ نے "سجاگ" کو بتایا کہ ان کے پاس صرف دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کا اختیار ہے۔
''نہ تو ہمیں شور کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف کوئی درخواست موصول ہوئی ہے اور نہ ہی ہم ایسی کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔ رہائشی آبادی میں فیکٹریوں کو بند کرانے کا اختیار کارپوریشن اورانتظامیہ کے پاس ہے۔
سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ کاروباری برادری کو رہائشی آبادی سے زبردستی نکالنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سمبڑیال روڈ پرسات سو ایکڑ کا نیا انڈسٹریل زون تعمیر کیا جا رہا ہے جس میں 375 چھوٹے بڑے کارخانوں کے علاوہ ایک معیاری ہوٹل، ریسکیو سنٹر، ہسپتال و دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ یہ منصوبہ 31 دسمبر 2024 تک مکمل ہو جائے گا۔
ڈپٹی کمشنر یقین دہانی کراتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کاروباری برادری کے ساتھ مل کر رہائشی آبادی میں چلنے والی فیکٹریوں کو انڈسٹریل زون میں منتقل کر دے گی۔
تاریخ اشاعت 12 اپریل 2023