کوئٹہ سے گرفتار ہونے والی مبینہ خودکش حملہ آور: خواتین کی گمشدگیاں حالات کو مزید بگاڑیں گی

postImg

یوسف بلوچ

postImg

کوئٹہ سے گرفتار ہونے والی مبینہ خودکش حملہ آور: خواتین کی گمشدگیاں حالات کو مزید بگاڑیں گی

یوسف بلوچ

خبر یہ تھی کہ کوئٹہ سے ایک خود کش بمبار ماہل بلوچ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ٹی وی اینکر اس گرفتاری کو انسداد دہشت گردی کے خصوصی محکمے سی ٹی ڈی کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کررہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ماہل کو کوئٹہ کے لیڈیز پارک کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔

مگر ماہل بلوچ کے اہل خانہ کا موقف اس سے بالکل مختلف ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ماہل کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا تھا۔

ماہل بلوچ کی ساس نے لوک سجاگ کو بتایا کہ رات کے وقت اچانک فورسز نے گھر میں گھس کر سب کو حراست میں لے لیا۔ "ہمیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور ماہل کو دوسرے کمرے میں بند کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں وہ اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے"۔

ماہل بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے علاقہ گومازی سے ہے اور وہ بلوچستان میں ہیومن رائٹس کونسل کی چیئر پرسن بی بی گل بلوچ کی بھابھی ہیں۔

ماہل کے شوہر بیبگر بلوچ عرف ندیم 2015ء میں مکران میں ایک عسکری کارروائی میں مارے گئے تھے۔ حکومت کے مطابق ان کا تعلق کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے تھا۔ ماہل کی بھابھی گل بی بی کے مطابق اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر پر چھاپے مارے، مارٹر گولے فائر کیے اور گھر کا بڑا حصہ جلا دیا۔ جس کے بعد ماہل بلوچ اپنی دو بچیوں سمیت کوئٹہ منتقل ہو گئیں۔جہاں وہ نہایت تنگ دستی کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہی تھیں۔

ماہل کی گرفتاری کی نہ تو کوئی ایف آئی آر سامنے آئی ہے نہ ہی کسی کو معلوم ہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے؟

سرکار کیا کہتی ہے؟

ترجمان سی ٹی ڈی نے میڈیا کو جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا کہ ماہل بلوچ کو خودکش جیکٹ سمیت کوئٹہ کے سیٹلائٹ ایریا میں لیڈیز پارک کے قریب گرفتار کیا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ ماہل بلوچ کا تعلق کالعدم مسلح تنظیم بی ایل ایف سے ہے۔

<p>گرفتاری کے بعد ماہل بلوچ کے گھر کا منظر<br></p>

گرفتاری کے بعد ماہل بلوچ کے گھر کا منظر

بلوچستان حکومت کے مشیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے ایک وڈیو میں دعویٰ کیا ہےکہ ماہل بلوچ کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے۔ ضیا لانگو نے سی ٹی ڈی کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 'مشتبہ خاتون' سے خودکش جیکٹ بھی برآمد ہوئی ہے۔

صوبائی مشیر داخلہ کے مطابق کوئٹہ شہر میں کچھ دنوں سے شدت پسند کارروائی کی اطلاعات تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گرفتار خاتون کو عدالت پیش کرکے صفائی کا موقع دیا جائے گا۔

ماہل بلوچ کی گرفتاری کے واقعہ کے خلاف کوئٹہ کے سریاب روڈ پر ان کے ورثا، انسانی حقوق کے کارکن اور طلبا احتجاج کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی کے الزامات من گھڑت ہیں۔

ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹرز تربت میں کیچ سول سوسائٹی، آل پارٹیز کیچ اور شہریوں کی جانب سے عطا شاد ڈگری کالج سے شہید فدا چوک تک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی اور بعد میں گرفتاری بلوچ ناموس پہ حملہ ہے۔ شرکا نے خطاب کرتے ہوئے کہا "اگر ریاستی ادارے اپنی پالیسیوں پہ غور نہیں کریں گے تو بلوچستان کی شورش کو مزید تقویت ملے گی"۔
مظاہرین نے ماہل کی ماورائے عدالت جبری گمشدگی کی مذمت کی اور چیف جسٹس آف پاکستان سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

کراچی میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ مظاہرین نے ماہل بلوچ کی بازیابی اور بلوچوں کے خلاف ماورائے قانون جبری گمشدگی کی روک تھام کا مطالبہ کیا۔

'خواتین کی جبری گمشدگی حالات کو مزید بگاڑے گی'

پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی اتحادی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری اعلامیے میں بتایا کہ ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف پارٹی نے مرکزی سطح پہ بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی این پی مینگل نے ماہل کی جبری گمشدگی کی مذمت کی اور ان پر لگائے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔

نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے، میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سی ٹی ڈی نے انہیں سیٹلائٹ ٹاؤن سے ملحقہ پارک سے خودکش جیکٹ کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کا بیان من گھڑت ہے۔ باخبر صحافیوں اور خاندان نے تصدیق کی ہے کہ انہیں گھر سے ہی جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتون نے پی ٹی ایم کراچی کی جانب سے منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کی مذمت کی اور رہائی کا مطالبہ کیا۔ منظور پشتون نے کہا کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی حالات میں بگاڑ کا سبب بنے گی۔

<p>ماہل بلوچ کی بازیابی کے لیے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ طلبا احتجاج کرتے ہوئے<br></p>

ماہل بلوچ کی بازیابی کے لیے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ طلبا احتجاج کرتے ہوئے

پشتون قوم پرست پارلیمانی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی دفتر سے جاری اعلامیے میں ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی کی مذمت کی گئی ہے۔

بلوچ غیر پارلیمانی تنظیم نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی ماہل بلوچ کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

عورت مارچ اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی ماہل بلوچ پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے اور بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کی مذمت کی گئی ہے۔

سی ٹی ڈی: کیا آگ بجھانے والے آگ بھڑکا رہے ہیں؟

اس سے قبل 15 اور 16 مئی 2022ء کی درمیانی رات تربت کی تحصیل ہوشاپ میں رات گئے نور جان بلوچ کو ان کے شوہر سمیت جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔

نور جان کی گرفتاری کے بعد سی ٹی ڈی نے الزام لگایا تھا کہ خاتون خودکش بمبار تھیں اور ان کو خودکش جیکٹ کے ساتھ پکڑا گیا۔

لیکن کسی کو سی ٹی ڈی کے موقف پر یقین نہیں تھا۔ لواحقین نے احتجاجاً تربت کو کوئٹہ سے ملانے والے ایم۔ایٹ سی پیک روڈ کو بند کردیا۔

عوامی رد عمل کے بعد نور جان بلوچ کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے انہیں ضمانت دے دی تھی اور سی ٹی ڈی اپنے مؤقف کا دفاع نہیں کر سکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں: 'اب ہمارے گھروں میں صرف عورتیں باقی رہ گئی ہیں'۔

19 مئی 2022ء کی شب کراچی کے علاقے نیول کالونی میں بلوچ شاعرہ حبیبہ پیر جان کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔ حبیبہ کی گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے سی ٹی ڈی نے انہیں کالعدم جماعت بلوچ لبریشن آرمی کی سہولت کار قرار دیا تھا۔

حبیبہ کی گرفتاری کے خلاف شدید عوامی رد عمل سامنے آیا۔ تربت شہر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور دو دن تک پورا شہر بند رہا۔ مظاہرین نے احتجاجاً تربت کو گوادر اور کراچی سے ملانے والے ایم ایٹ موٹروے کو ڈی بلوچ کے مقام پر بند کر دیا گیا۔ بعد ازاں شدید عوامی ردعمل کے بعد حبیبہ بلوچ کو بازیاب کیا گیا تھا۔

حال ہی میں تین فروری 2023ء کو ضلع خضدار کے علاقہ زہری سے تعلق رکھنے والی، 65 سالہ بی بی بس خاتون کو ان کے دو پوتوں، بہو (رشیدہ بلوچ) اور بیٹے رحیم بلوچ سمیت کوئٹہ سے جبری لاپتہ کیا گیا۔

بی بی بس خاتون کو پوتوں سمیت دو روز بعد رہائی ملی اور بہو رشیدہ بلوچ 13 فروری کی شب ایئرپورٹ روڈ کوئٹہ سے بازیاب ہوئیں لیکن محمد رحیم زہری تاحال لاپتہ ہیں۔

تاریخ اشاعت 24 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

یوسف بلوچ کا تعلق کیچ مکران سے ہے۔ وہ صحافت کے طالب علم ہیں اور بلوچستان کے مختلف مسائل پر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔

thumb
سٹوری

عمرکوٹ سانحہ: "خوف کے ماحول میں دیوالی کیسے منائیں؟"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

کشمیر: جس کو سہارے کی ضرورت تھی، آج لوگوں کا سہارا بن گئی

خیبر پختونخوا: لاپتہ پیاروں کے قصیدے اب نوحے بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا کی ماربل انڈسٹری کے ہزاروں مزدور بیروزگار کیوں ہو رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبدالستار

تھر کول منصوبہ: 24 ارب رائیلٹی کہاں ہے؟

thumb
سٹوری

بحرین کے لوگ مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

فنکار آج بھی زندہ ہے مگر عمر غم روزگار میں بیت گئی

thumb
سٹوری

رحیم یارخان مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا ساجن ملوکانی کون تھا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: مقامی لوگ ہجرت کریں گے، چشمے سوکھ جائیں گے مگر بجلی گھر بنے گا

thumb
سٹوری

تھرپارکر: کیا نان فارمل ایجوکیشن سنٹر بچوں کو سکولوں میں واپس لا پائیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

ڈاکٹر شاہنواز کے قاتل آذاد ہیں اور انصاف مانگنے والوں پر تشدد ہورہا ہے

افغانستان سے تجارت پر ٹیکس: پاکستان میں پھل اور سبزیاں کیسے متاثر ہو رہی ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.