ضلع واشک کا پہلا انٹرکالج: سات سال سے زیر تعمیر عمارت اور اس میں زیر تعلیم طلبا کی کہانی

postImg

اسماعیل عاصم

postImg

ضلع واشک کا پہلا انٹرکالج: سات سال سے زیر تعمیر عمارت اور اس میں زیر تعلیم طلبا کی کہانی

اسماعیل عاصم

ضلع واشک میں پہلے گورنمنٹ بوائز انٹر کالج  کے قیام کی منظوری اگست 2008ء میں دی گئی اور تحصیل بسیمہ میں اس کی عمارت کی تعمیر کا سنگ بنیاد 24 اپریل 2016ء کو رکھا گیا۔ کئی برس گزرنے کے باوجود بلوچستان کے وسیع وعریض ضلع کا یہ پہلا کالج تاحال زیر تعمیر ہے۔

حالیہ مردم شماری کے مطابق ضلع واشک کی کل آبادی ساڑھے چھ لاکھ ہے۔ واشک کو 2005ء میں خاران سے علیحدہ کر کے ضلع بنایا گیا تھا۔

پورا ضلع اب تک فعال انٹر کالج سے محروم ہے۔ ضلع میں گرلز کالج بھی منظور ہو چکا ہے لیکن اب تک اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، لہٰذا طالبات کے لیے بھی بوائز انٹر کالج بسیمہ ہی حصول علم کا واحد ذریعہ ہے۔

2014ء میں بوائز کالج کی عمارت کے ٹینڈر ہوئے تھے لیکن ٹھیکے کی کوئی بھی درخواست موصول نہ ہونے پر یہ منسوخ ہو گئے۔

دو سال بعد چھ مقامی ٹھیکیداروں نے اس کا مشترکہ ٹھیکہ حاصل کیا۔عمارت پر لاگت کا تخمینہ 10 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔

منظوری کے بعد گورنمنٹ بوائز انٹر کالج بسیمہ میں تدریس کا عمل 2008ء ہی میں شروع کر دیا گیا تھا۔اس کے  لیے محکمہ تعلیم نے ایک پرنسپل اور دو لیکچرر کا تبادلہ بوائز انٹر کالج بسیمہ کر دیا۔

کالج کی اپنی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے ہائی سکول کی عمارت کے ایک حصہ کو کالج کے حوالے کر دیا گیا۔

بسیمہ اور ناگ سمیت ضلع بھر سے فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کے خواہش مند طلبا و طالبات نے داخلہ لینا شروع کیا۔

ابتدا میں اس پسماندہ اور غریب علاقے کے طلبا روزانہ کلاسز لینے جاتے تھے۔تاہم یہ عمل زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ یہاں تعینات ہونے والے لیکچررز کو رہائشی کوارٹرز میسر نہ تھے۔اسے بنیاد بنا کر انہوں نے دیگر اضلاع کے کالجوں میں اپنے تبادلے کروا لیے۔

یوں کالج میں انٹرمیڈیٹ کی تدریس کا عمل کم و بیش ختم ہو گیا اور طلبا و طالبات کی سرگرمی داخلہ لینے اور امتحانی فارمز جمع کروانے تک محدود ہو گئی۔ تاہم کاغذوں میں کالج فعال ہے۔

ان حالات میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند بہت سے طلبا کوئٹہ یا ملک کے دیگر میں علاقوں میں پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز میں کلاسز لینے لگے۔ غربت کے باعث جن طلبا کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا وہ تعلیم سے محروم ہوگئے یا محنت مزدوری کرنے لگے۔

اس پر اہل علاقہ نے احتجاج شروع کیا۔ کالج فعال کرانے کے لیے انھوں نے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہ محنت رنگ لے آئی اور نومبر 2022ء میں لوکل گورنمنٹ کے کوارٹرز میں باقاعدہ تدریسی عمل دوبارہ شروع ہوا۔

کالج کے فرسٹ ائیر کے طالب علم شہزاد فتح عیسیٰ زئی کلی کے نواحی علاقے قیصر آباد کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا تھا تاہم اس کے بعد کوئٹہ کی ایک پرائیوٹ اکیڈمی میں کلاسز لینا شروع کر دیں۔

لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ضلع واشک میں پہلی بار گزشتہ سال نومبر 2022ء میں فرسٹ اور سیکنڈ ائیر کے طلبا و طالبات کی باقاعدہ کلاسز شروع ہوئیں۔

لوکل گورنمنٹ کے کوارٹرز میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ عمارت کی چھوٹی سی چار دیواری میں طلبا و طالبات کو بیٹھنے کے لیے کوئی موزوں جگہ میسر نہیں۔ کالج میں طلبا و طالبات دونوں تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر مناسب بیت الخلا نہیں ہے۔ دو سو کے قریب طلبا کے لیے صرف چار کلاس روم ہیں۔

"کلاس روم چھوٹے ہونے کے باعث بیشتر طلبا کھڑے ہو کر کلاس لیتے ہیں جو ان کے لیے کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کالج میں مختلف مضامین کے اساتذہ نہیں ہیں۔ انٹر کالج کے لیے ایک سائنس ٹیچر ہے۔ کیمسٹری اور زوالوجی کے ٹیچرز نہیں ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

ناقص منصوبہ بندی یا سیاسی اقربا پروری: خضدار کے بچے اپنے تعلیمی حق سے کیوں محروم ہیں؟

جمعیت علمائے اسلام کے رکن اور واشک سے رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) حاجی زاہد علی ریکی نے کہا ہے کہ بوائز انٹر کالج بسیمہ کا تعمیراتی کام سابق ایم پی اے واشک کے دور میں شروع ہوا تھا۔

"اس وقت واشک میں کرپشن کا بازار گرم تھا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ نیب صرف پنجاب تک محدود تھی۔اس لیے واشک میں جاری منصوبے اور زیر التوا سکیمیں پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکیں۔"

ان کے مطابق انٹر کالج بسیمہ کے زیادہ تر ٹھیکداروں کو مکمل رقم مل چکی ہے۔

"جن جن ٹھیکیداروں کے حصے کا کام نامکمل ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی کر کے متعلقہ حکام سے ان کے لائسنس منسوخ کروائیں گے تاکہ آئندہ کوئی اپنے کام میں غفلت نہ برتے۔"

انھوں نے دعویٰ ہے کہ اپنے دو سالہ دور میں علاقے میں تین گرلز انٹر کالج منظور کروائے ہیں جو 2024ء میں مکمل ہو جائیں گے۔

تاریخ اشاعت 19 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسماعیل عاصم کا تعلق بلوچستان کے ضلع واشک کے تحصیل بسیمہ سے ہے۔ گزشتہ 8 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ ضلعی پریس کلب کے صدر ہیں۔

خیبر پختونخوا: لاپتہ پیاروں کے قصیدے اب نوحے بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا کی ماربل انڈسٹری کے ہزاروں مزدور بیروزگار کیوں ہو رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبدالستار

تھر کول منصوبہ: 24 ارب رائیلٹی کہاں ہے؟

thumb
سٹوری

بحرین کے لوگ مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

فنکار آج بھی زندہ ہے مگر عمر غم روزگار میں بیت گئی

thumb
سٹوری

رحیم یارخان مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا ساجن ملوکانی کون تھا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: مقامی لوگ ہجرت کریں گے، چشمے سوکھ جائیں گے مگر بجلی گھر بنے گا

thumb
سٹوری

تھرپارکر: کیا نان فارمل ایجوکیشن سنٹر بچوں کو سکولوں میں واپس لا پائیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

ڈاکٹر شاہنواز کے قاتل آذاد ہیں اور انصاف مانگنے والوں پر تشدد ہورہا ہے

افغانستان سے تجارت پر ٹیکس: پاکستان میں پھل اور سبزیاں کیسے متاثر ہو رہی ہیں

انرجی ٹرانسزیشن کیا ہے اور اس کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

thumb
سٹوری

ضلع تھرپارکر لائیو سٹاک کا سب سے بڑا مرکز مگر یہاں جانوروں کے علاج کی سہولیات کون دے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.