اعلیٰ تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات: 'غریب طبقے کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا معاشرتی مساوات کے لیے انتہائی ضروری ہے'۔

postImg

محمد فیصل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

اعلیٰ تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات: 'غریب طبقے کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا معاشرتی مساوات کے لیے انتہائی ضروری ہے'۔

محمد فیصل

loop

انگریزی میں پڑھیں

حسنین جمیل فریدی 2019 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم فل سیاسیات کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع پاکپتن سے ہے اور وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں جو یونیورسٹی تک پہنچے ہیں۔ 

حسنین کے والد پاکپتن کی غلہ منڈی میں دکان چلاتے تھے لیکن کاروبار میں نقصان ہونے پر انہیں دکان بند کرنا پڑی۔ اس دوران حسنین کی تعلیم بھی مکمل ہونے کو تھی تاہم مالی حالات ٹھیک نہ ہونے کے باعث وہ دو سیمیسٹر کی فیس (ساٹھ ہزار روپے) جمع نہیں کروا سکے۔ انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ: 'وسائل نہ ہونے کے باعث مجھے یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا'۔

انہی دنوں ان کے امتحان ہونا تھے جن کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ جس طالب علم نے فیس ادا نہیں کی وہ کمرہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکتا جس پر انہیں امتحان چھوڑنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ انتظامیہ نے حسنین کا تحقیقی مقالہ بھی قبول نہ کیا اور انہیں کہا گیا کہ واجبات ادا کرنے تک انہیں ڈگری بھی جاری نہیں کی جائے گی۔

اس دوران ہاسٹل کے واجبات سمیت ان کی واجب الادا فیس قریباً دو لاکھ روپے تک پہنچ گئی تھی۔ اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ لہٰذا انہوں نے واجبات ادا کرنے کے لیے دوستوں سے ادھار رقم لی مگر رقم جمع کرانے کے بعد جب انہوں نے ڈگری کے حصول کے لیے درخواست دی تو انہیں بتایا گیا کہ مقررہ مدت میں ڈگری وصول نہ کرنے کے باعث یہ کینسل ہو چکی ہے۔ اسی اثنا میں حسنین کے یونیورسٹی میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی کیونکہ وہ طلبہ کے حقوق کی تحریک میں حصہ لیتے چلے آ رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف انہی کا مسئلہ نہیں بلکہ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی طالب علم اگر فیس ادا نہ کر پائے تو اسے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اسی طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'فیس جمع نہ کروانے پر پر طلبہ کو کمرہ امتحان سے نکال باہر کرنا ایک معمول ہے'۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیسوں میں اضافے کی وجہ سے بہت سے طلبہ اپنی ڈگریاں مکمل نہیں کر پاتے۔ 'پنجاب یونیورسٹی میں ایسے طلبہ کی تعداد سینکڑوں میں ہے'۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے علی تراب کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے۔ وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے گھر والوں نے یہ سوچ کر انہیں اعلیٰ تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا کہ وہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری حاصل کر لیں گے جس سے نا صرف ان کی اپنی بلکہ پورے گھرانے کی زندگی بہتر ہو جائے گی۔ ان کے والد چھوٹا سا کاروبار کرتے ہیں لہٰذا ان کے لیے بیٹے کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا آسان نہیں ہے۔ چنانچہ علی تراب ٹیوشن پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ 

چند ماہ پہلے کورونا وائرس کی وبا کے باعث یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں اور طلبہ کو آن لائن کلاسیں لینے کو کہا گیا مگر ان کی فیس میں کوئی کمی نہ کی گئی۔ طلبہ نے اس پر احتجاج کیا تو فیس بِل میں محض 'فاضل اخراجات' کے خانے میں 30 فیصد کمی کر دی گئی۔ یہ اخراجات یونیورسٹی لائبریری اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے استعمال سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس طرح علی تراب کی فیس 28,300 روپے سے کم ہو کر 27,040 روپے ہو گئی جس سے ان کو کوئی واضح ریلیف نہ ملا۔

ان کا کہنا ہے یونیورسٹی کے معیار تعلیم کو دیکھا جائے تو اس کے مقابلے میں طلبہ سے وصول کی جانے والی فیس بہت زیادہ ہے۔ 'یوں لگتا ہے کہ یونیورسٹی کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا ہے'۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے احمد عظیم بھی فیسوں میں اضافے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف پشاور میں ایم فل (نفسیات) کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے پہلے سمسٹر کی پڑھائی کے لیے یونیورسٹی کو 54,800 روپے فیس ادا کی ہے اور مکمل ڈگری کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو  مجموعی طور پر 219,200 روپے دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دس سال پہلے ان کے ایک رشتہ دار نے بھی اسی یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم فل کیا تھا جس کے لیے انہوں نے مجموعی طور پر 40,000 روپے فیس ادا کی تھی۔ دوسرے لفظوں میں ایک دہائی میں یونیورسٹی کی فیس میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

کچھ تعلیمی اداروں میں یہ اضافہ بہت ہی اچانک کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ مہینے لاہور میں ہوم اکنامکس یونیورسٹی (سابقہ ہوم اکنامکس کالج) میں ماسٹرز ڈگری کی مجموعی فیس 40,000 روپے سے بڑھا ڈیڑھ لاکھ روپے کر دی گئی جبکہ بی ایس آنرز کی فیس پانچ ہزار سے بڑھ کر 42,500 روپے ہو گئی ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے چونکہ کالج کا درجہ بڑھا کر اسے یونیورسٹی بنا دیا گیا ہے اس لیے تدریس پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے لیکن اب بھی اس یونیورسٹی کی فیس بہت سے دوسرے سرکاری اداروں کی نسبت کہیں کم ہے۔ دوسری جانب طالبات کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں معیار تعلیم یا سہولیات پہلے جیسی ہی ہیں اور تدریسی ماحول میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جو فیسوں میں اس قدر بھاری اضافے کا جواز بن سکے۔

تعلیم کی راہ پر پیسے کی دیوار

پچیس سال پہلے پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد پچیس تھی جو اب 133 ہو گئی ہے جبکہ نجی شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے آٹھ ادارے کام کر رہے تھے جن کی تعداد اب 83 تک بڑھ گئی ہے۔ 

پچھلے بیس برس کے دوران سرکاری شعبے میں جہاں بہت سے نئے کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہوئی ہیں وہیں بہت سے کالجوں کو بھی اپ گریڈ کر کے یونیورسٹی بھی بنا دیا گیا ہے۔ اس اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پچھلی ڈھائی دہائیوں میں پاکستان کی آبادی میں قریباً ساڑھے سات کروڑ نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میں 15 سے 33 سال کی عمر کے نوجوانوں کی شرح 63 فیصد ہے۔ اسی طرح گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم پانے والوں کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند لوگوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 2000 کی پہلی دہائی میں پاکستانیوں کی قوتِ خرید بھی بہتر ہوئی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت معلومات تک رسائی آسان ہونے سے بھی اعلیٰ تعلیم کی مانگ بڑھ گئی۔

وفاقی وزارت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے جاری کردہ 'پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسٹکس' (2016-17) کے مطابق پاکستان کی یونیورسٹیوں میں مختلف سطح کے تعلیمی پروگرامز میں طلباء کی مجموعی تعداد 1,463,279 تھی۔ جبکہ یو ایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق اس وقت پاکستان میں 17 سے 23 سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد 30,300,000  سے زیادہ تھی جن میں سے 54.4 فیصد لڑکے اور45.6 فیصد لڑکیاں تھیں۔ گویا ان تمام نوجوانوں میں سے 20.7 فیصد ایسے تھے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے۔

اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلے کا جہاں ایک مطلب یہ ہے کہ بہت سے معاشی حیثیت میں بہتری آنے کی وجہ سے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں وہاں اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے خاندان اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دے رہے ہیں تا کہ وہ اپنا معاشی مستقبل بہتر بنا سکیں۔ اس صورت حال میں یہ بات جائز معلوم ہوتی ہے کہ حکومت اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند لوگوں کو ایسی مراعات دے جس سے انہیں اپنی تعلیمی اور معاشی حیثیت بہتر بنانے میں مدد ملے۔ مگر اس کے برعکس اس عرصے میں اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اداروں کی تعداد میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ان کی فیسیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جو ڈگری کورس چند ہزار روپے میں ہوتا تھا اسی کے لیے آج طلبہ کو کئی لاکھ روپے فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔فیسوں میں اس بے تحاشہ اضافے سے غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے سرکاری اداروں میں بھی اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ 

سرکاری یونیورسٹیوں کے مالی مسائل

یونیورسٹیوں میں سستی یا سبسڈائز تعلیم کا انحصار حکومت کی جانب سے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل پر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے یونیورسٹیوں کو سالانہ بنیادوں پر گرانٹ مہیا کرتی ہے۔ 

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالغفور نے سجاگ کو بتایا کہ سرکاری شعبے میں چلنے والی یونیورسٹیوں میں طلبہ سے لی جانے والی فیس کا تعین ہر یونیورسٹی کی انتظامیہ خود ہی کرتی ہے اور اس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق 'ایچ ای سی ہر سال یونیورسٹیوں کو درکار مالی وسائل کا تخمینہ لگا کر حکومت کو بھیج دیتا ہے اور پھر حکومت اس تخمینے اور اپنے مالی وسائل کو مدنظر رکھ کر فنڈز مختص کرتی ہے'۔

عبدالغفور کا کہنا ہے کہ آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیوں کی مالیاتی اور انتظامی نگرانی کا اختیار صوبوں کو مل گیا ہے جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا اصل کام تعلیمی معیار کا جائزہ لینا رہ گیا ہے۔ کمیشن ہر یونیورسٹی کو اس کے تعلیمی معیار کی بنیاد پر رینکنگ دیتا ہے اور اسی رینکنگ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس یونیورسٹی کو کتنی گرانٹ دی جانی چاہیے۔ اسی رینکنگ کی بنیاد پر حکومت سے موصول شدہ گرانٹ تمام یونیورسٹیوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔ 'یونیورسٹیوں کے لیے فنڈز کی فراہمی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کردار بس اتنا ہی ہے'۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ایف سی کالج یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف نیچرل سائنسز کے موجودہ ڈین پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ کے خیال میں یونیورسٹیوں کی آمدن میں کمی طلبہ کے تعلیمی اخراجات میں اضافے کی سب سے اہم وجہ ہے کیونکہ 'پاکستان میں سرکاری شعبے میں چلنے والی یونیورسٹیوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ملنے والی گرانٹ ہے۔ 'چونکہ یہ گرانٹ یونیورسٹیوں کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی اس لیے سرکاری شعبے کی بیشتر یونیورسٹیاں خسارے میں چل رہی ہیں'۔ 

حسن امیر شاہ کے مطابق موجودہ حالات میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ملنے والی گرانٹ کا ایک بڑا حصہ یونیورسٹیوں کے عملے کی تنخواہوں اور عمارتوں اور فرنیچر وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے جبکہ صوبوں کی جانب سے یونیورسٹیوں کی کوئی خاص وسائل مہیا نہیں کیے جاتے۔ 'ایسے میں یونیورسٹیوں کے پاس طلبہ پر خرچ کرنے کے لیے زیادہ رقم نہیں ہوتی اور اسی لیے یہ کمی ٹیوشن فیس سے پوری کرنا پڑتی ہے جس میں ملکی معاشی حالات کی مطابقت سے اضافہ ہوتا رہتا ہے'۔

حکومتی اعدادوشمار ان کی بات کی تصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت نے رواں مالی سال میں ہائر ایجویکشن کمیشن کا بجٹ پچھلے سالوں کی نسبت بہت کم کر دیا ہے۔ اس سال کے وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کا حصہ 0.09 فیصد رکھا گیا ہے جو پچھلی دو دہائیوں میں کم ترین ہے۔ دوسری طرف ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس سال یونیورسٹیوں کو دینے کے لیے وفاقی حکومت سے 104 ارب روپے مانگے تھے مگر اسے صرف 77 ارب جاری کیے گئے جبکہ گزشتہ مالی سال میں یہ گرانٹ 97 ارب روپے تھے۔

لمز یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد فیصل باری کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگر اعلیٰ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اس کی بدولت نوجوانوں کو مستقبل کے مساوی مواقع میسر آئیں تو پھر اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی قیمت کیسے طے کی جائے تا کہ امیر اور غریب دونوں طبقوں کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم تک مساوی رسائی حاصل ہو سکے۔ ان کے خیال میں 'غریب طلبہ کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی دینے کے لیے اسے سبسڈائز کرنا پڑے گا چاہے وہ سکالرشپ سے ہو یا فیس کم کر کے ہو'۔

لیکن وہ اس بات سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر فیس کم کی جائے تو تعلیم کا معیار قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یونیورسٹی کو اپنے اخراجات قابو میں رکھنے کے لیے اساتذہ کی تعداد کم کرنا پڑے گی یا دوسری تعلیمی سہولیات میں کٹوتی کرنا پڑے گی۔ 'دنیا میں کہیں بھی یونیورسٹی کی تعلیم سستی نہیں ہوتی اور اس کے حصول اور فراہمی کے لیے بہت سے پیسے درکار ہوتے ہیں'۔ فیصل باری یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ فیس کم رکھنے کی صورت میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دیگر ذرائع سے پیسے حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ 'یہ پیسے کون دے گا؟ اگر پیسے طالب علم نے دینا ہیں تو تعلیم امیروں تک ہی محدود ہو جائے گی۔ اگر ہر خاص و عام کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ممکن بنانا ہے تو پھر ریاست کو آگے بڑھنا اور اسے سبسڈائز کرنا ہو گا'۔

پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلبہ کے لیے سہولیات کا خاتمہ

سرکاری شعبے کی یونیورسٹیاں نا صرف سستی تعلیم کے باعث متوسط اور زیریں متوسط طبقے کے طلبہ کی ترجیح ہیں بلکہ یہ پسماندہ علاقوں کے طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کا واحد ذریعہ بھی ہیں۔

بلوچستان کے علاقے دالبندین سے تعلق رکھنے والے ارسلان حمید ایسے ہی ایک طالب علم ہیں جن کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے پنجاب حکومت کی جانب سے بلوچ طلبہ کے لیے چلائے جانے والے خصوصی پروگرام سے فائدہ اٹھایا جس کے تحت نا صرف پنجاب کی متعدد بڑی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلبہ کو مفت تعلیم اور رہائش فراہم کی جاتی تھی بلکہ انہیں کھانے پینے کے لیے پانچ ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا تھا۔

ارسلان ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں سیاسیات کے طالب علم ہیں۔ لیکن اب جبکہ وہ اپنی چار سالہ ڈگری کے آخری سال میں ہیں تو یونیورسٹی نے اچانک انہیں دی جانے والی رعائتیں ختم کر دی ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں کمی کر دی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے یونیورسٹی کو یہ سہولیات ختم کرنا پڑیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

طبی تعلیم کی نج کاری: حکومتی پالیسیوں کے باعث ڈاکٹر بننے کی قیمت میں شدید اضافہ۔

اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لئے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچ  طلبا نے یکم ستمبر 2020 کو یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کرنا شروع کیا لیکن چالیس دن کے مسلسل احتجاج کے باوجود بھی جب یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی آواز نہ سنی تو 35 کے قریب طلبا نے ملتان سے اسلام آباد  پیدل مارچ کرنا شروع کر دیا۔یہ مارچ بالآخر اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں لاہور میں اختتام پذیر ہوا جب پنجاب کے صوبائی گورنر نے اعلان کیا کہ وہ بلوچ طلبہ کی تعلیمی مراعات کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

'اعلیٰ تعلیم سب کا بنیادی حق نہیں'

فیصل باری کہتے ہیں اگر ریاست چاہتی ہے کہ سبھی لوگوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے تو اسے خود آگے آنا ہو گا۔ 'اس کے دو ہی طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ یونیورسٹیوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے درکار تمام مالی وسائل مہیا کیے جائیں اور طلبہ پر مالی بوجھ نہ ڈالا جائے'۔ اس کی ایک مثال سرکاری شعبے میں چلنے والے سکول ہیں جہاں طلبہ سے فیس نہیں لی جاتی مگر سکول کو درکار تمام مالی وسائل حکومت مہیا کر دیتی ہے۔ 'دوسرا طریقہ یہ ہے کہ طلبہ کو وظائف دیے جائیں'۔ 

فیصل باری کا یہ بھی ماننا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے 'ہر معاشرے کو پڑھے لکھے لوگ درکار ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ پڑھ لکھ کر انہیں نوکریاں ملیں اور ان کے معاشی حالات بہتر ہو سکیں بلکہ ہمیں اپنا سماج بہتر بنانے، جمہوریت کو ترقی دینے اور سماجی اور سیاسی شعور بہتر بنانے کے لیے بھی تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے'۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں کسی شعبے میں لوگوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ تو نہیں ہو گئی جیسا کہ کہیں ہم ضرورت سے زیادہ ڈاکٹر تو پیدا نہیں کر رہے یا فلسفے میں ایم اے کرنے والوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ تو نہیں ہو گئی۔ 'ایسے حالات میں کسی مخصوص شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر کوئی روک لگائی جا سکتی ہے'۔

ڈاکٹر حسن امیر بھی فیصل باری سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے 'اگرچہ یونیورسٹیاں طلبہ کو وظائف بھی دے رہی ہیں مگر بہت قلیل تعداد میں طلبہ ہی ان سے مستفید پاتے ہیں۔ یہ تعداد دس گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے'۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں سبھی طلبہ کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی ممکن بنانے کے لیے حکومت کو سرکاری شعبے میں چلنے والی یونیورسٹیوں کے مالی وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا۔ 'اسی صورت میں ہی طلبہ پر ٹیوشن فیس کے مالی بوجھ میں کمی لائی جا سکتی ہے'۔ 

ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیئر بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کا حصول صرف اور صرف مالی استطاعت سے مشروط نہیں ہونا چاہیے۔  ایک حالیہ اخباری مضمون میں وہ کہتے ہیں کہ 'یورپی ممالک میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع دینے کے لیے اس شعبے کو حکومت کی جانب سے بھرپور مالی معاونت ملتی ہے'۔

اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ناصرف حکومت بلکہ کارپوریٹ سیکٹر اور فلاحی ادارے بھی اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی مالی مدد کرتے ہیں۔ 'پاکستان میں بھی ایسا ہی کوئی نمونہ اختیار کر کے سرکاری و نجی شعبے میں طلبہ پر فیسوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے'۔ 

نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں لاہور سے زاہد علی اور عروج اورنگزیب نے معاونت کی۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 27 اکتوبر 2020  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 1 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد فیصل صحافی، محقق اور مترجم ہیں اور ملک کے نمایاں اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.