جنوب مشرقی بلوچستان کا قصبہ اُتھل اور اسی صوبے کا جنوبی ساحلی شہر گوادر قومی اسمبلی کے ایک ہی حلقے میں واقع ہیں لیکن آدم قادر بخش کے بقول انہیں جوڑنے والی مکران کوسٹل ہائی وے پر سکیورٹی اداروں نے 58 چوکیاں بنائی ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان چوکیوں سے گزرے والے ہر مقامی شخص کو نہ صرف اپنی شناختی دستاویزات دکھانا پڑتی ہیں بلکہ بعض اوقات تلاشی بھی دینا پڑتی ہے۔
وہ گوادر میں ایک بلوچ قوم پرست جماعت، نیشنل پارٹی، کے عہدے دار ہیں اور پچھلے سال 16 نومبر سے لے کر 16 دسمبر تک جاری رہنے والے مقامی احتجاجی دھرنے میں مسلسل شریک رہے ہیں۔
اسی دھرنے میں شریک صادق فتح گوادر سے دو سو 41 کلومیٹر شمال میں واقع زاموران نامی گاؤں میں رہتے ہیں جو پاکستان اور ایران کی سرحد سے متصل ضلع کیچ کا حصہ ہے۔ ان کے بقول اُس علاقے میں فرنٹیئر کور کے اہل کار اتنی بڑی تعداد میں تعینات ہیں کہ ان کی رہائش کے لیے "مقامی سکول اور ہسپتال کو بھی خالی کرا لیا گیا ہے"۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں نے جگہ جگہ چوکیاں بنا رکھی ہیں جن سے گزرنے والے مقامی لوگوں کو "روزانہ ذلیل کیا جاتا ہے"۔
صادق فتح کا مزید کہنا ہے کہ پچھلے تین سال میں پاک-ایران سرحد پر سکیورٹی اس قدر سخت کر دی گئی ہے کہ مقامی لوگ اپنی مرضی سے سرحد کے دوسری طرف رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے بھی نہیں مل سکتے۔ ان کے مطابق "سرحدی علاقوں کے باشندے پہلے کی طرح آزادی سے سامانِ تجارت بھی اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر منتقل نہیں کر سکتے"۔
وہ خود کئی سالوں سے سرحدی تجارت سے وابستہ ہیں اور کہتے ہیں کہ ماضی میں وہ بِلا روک ٹوک ایران سے اشیائے خوردونوش گاڑیوں پر لاد کر لاتے تھے اور مقامی منڈیوں میں بیچتے تھے کیونکہ کراچی یا کوئٹہ سے یہ چیزیں لانا بہت مہنگا پڑتا تھا۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ 2018 میں وفاقی حکومت نے اس سرحد کے آرپار آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگادی اور تافتان کے مرکزی تجارتی راستے کے علاوہ صرف دو مقامات، بلیدہ اور پنجگور، کو اشیائے تجارت کی آمدورفت کے لیے کھلا چھوڑا۔ ان کے مطابق ان دونوں مقامات سے بھی صرف ایرانی ڈیزل لے کر آنے کی اجازت ہے۔
صادق فتح کہتے ہیں کہ یہ ڈیزل درآمد کرنے کے لیے سکیورٹی حکام نے ایک ٹوکن سسٹم متعارف کرا رکھا ہے جس کے تحت ہر روز تیل بردار گاڑیوں کی صرف ایک محدود تعداد کو ایران کی طرف سے پاکستان میں داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "ڈیزل درآمد کرنے کے خواہش مند ڈرائیوروں کی ہر روز سرحد پر ایک لمبی لائن لگتی ہے لیکن ٹوکنوں کی تعداد محدود ہونے کی وجہ سے وہاں متعین سکیورٹی اہل کار رشوت لے کر اُن میں سے کچھ کو ہی یہ ٹوکن جاری کرتے ہیں"۔
گوادر کیا مانگتا ہے؟
بشیر ہوتھ نامی گوادری ماہی گیر احتجاجی دھرنے کے دوران ایک دن پانی سے بھری بوتل اپنے ساتھ لائے ہیں جس میں موجود پانی اتنا گندا ہے کہ اس کی رنگت سیاہ پڑ چکی تھی اور اس سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے "یہ پانی اپنے محلے میں نصب ایک ٹونٹی سے بھرا ہے"۔
دھرنے میں موجود کئی دیگر لوگوں کو بھی شکایت ہے کہ حکومت گوادر اور اس کے اردگرد اسی طرح کا مضرِ صحت پانی فراہم کرتی ہے اور وہ بھی ہفتے میں ایک آدھ بار صرف ایک گھنٹے کے لئے۔ ان کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں اس پانی کی مقدار میں اور بھی کمی ہو جاتی ہے اور 25 دنوں میں اسے صرف ایک بار ہی فراہم کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں مقامی گھرانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ ہر ماہ کئی ہزار روپے خرچ کر کے ٹینکروں سے پانی خریدیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) نامی ترقیاتی منصوبے کے حصے کے طور پر گوادر میں ایک ایسا پلانٹ لگایا جائے گا جو اپنی تکمیل کے بعد روزانہ 50 لاکھ گیلن پانی صاف کر کے شہر کو فراہم کر سکے گا۔ سی-پیک کی ویب سائٹ کے مطابق اس پلانٹ پر پانچ ارب روپے لاگت آئے گی جن میں سے 67 فیصد رقم وفاقی حکومت اور 33 فیصد رقم بلوچستان کی صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔
اگرچہ 2018 کے مارچ اور مئی کے مہینوں میں بالترتیب بری فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ اور سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی دونوں اس پلانٹ کا افتتاح کر چکے ہیں لیکن دھرنے کے متعدد شرکا کا کہنا ہے کہ اس سے ابھی تک "ایک گلاس پانی بھی نہیں نکلا۔"
پانی کی کمی کے علاوہ گوادر کا دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی قلت ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایک دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ بجلی دستیاب نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ گرمیوں میں شدید نوعیت اختیار کر لیتا ہے جب بجلی کی فراہمی دن میں محض چند گھنٹوں تک محدود ہو جاتی ہے۔
حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے سی-پیک کے تحت گوادر میں درآمدی کوئلے سے تین سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا ایک کارخانہ لگانے کی تیاری کر رہی ہے جس پر، سی-پیک کی ویب سائٹ کے مطابق، 54 کروڑ 23 لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالر خرچ ہوں گے۔ اس کے لیے درکار ایک سو ایکڑ اراضی کا حصول فروری 2020 میں مکمل کیا گیا جبکہ، سرکاری اندازوں کی رُو سے، اس کی تعمیر کی تکمیل 2023 کے آخر میں متوقع ہے۔
لیکن مقامی بجلی گھر میں کام کرنے والے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ اس میں تاخیر لازمی ہے کیونکہ ابھی تک اس کی تعمیر کا آغاز بھی نہیں ہوا۔ نتیجتاً گوادر میں استعمال ہونے والی بجلی ایک ہزار کلومیٹر لمبی ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے ایران سے منگائی جاتی ہے۔
اس کی درآمد کا پہلا معاہدہ 2003 میں کیا گیا جب ایران نے 25 میگاواٹ بجلی فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ 2006 میں اس معاہدے میں توسیع کر دی گئی اور پاکستان ایران سے 100 میگاواٹ بجلی خریدنے لگا۔
اس کے بارے میں لوگوں کو دو بڑی شکایات ہیں۔ ایک یہ کہ ٹرانسمیشن لائن کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی وولٹیج بہت کم ہوتی ہے چنانچہ اسے کئی ایسے گھریلو اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا جن میں زیادہ وولٹیج کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ ریفریجریٹر، فریزر اور مشینری چلانا۔
ان کی دوسری شکایت یہ ہے کہ مقامی لوگوں سے اس بجلی کی وہی قیمت وصول کی جاتی ہے جو پاکستان کے دوسرے حصوں میں وصول کی جاتی ہے۔ حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کی قیمتِ خرید ملک میں عام طور پر استعمال ہونے والی بجلی کی قیمتِ خرید سے کم ہے۔ ایران کے ڈپٹی انرجی منسٹر کے 2014 میں دیے گئے ایک بیان کے مطابق اس کی قیمت آٹھ سے 11 سینٹ فی کلوواٹ فی گھنٹہ ہے۔
'ٹرالر بھگاؤ چولہا جلاؤ'
وسطِ دسمبر 2021 کے ایک روز عبد الکریم نامی ماہی گیر دھرنے سے کچھ کلومیٹر دور گوادر کے مغربی ساحل پر دھوپ میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان جیسے لوگ سمندر سے مچھلی نہ ملنے کی وجہ سے فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول "پہلے ایک چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر چھ ماہی گیر سمندر میں جاتے تھے اور ہزاروں روپے کی مچھلی پکڑ لاتے تھے لیکن اب انھیں پورا پورا دن سمندر میں رہنے کے باوجود کچھ نہیں ملتا"۔
وہ اس صورتِ حال کا ذمہ دار ان ٹرالروں کو قرار دیتے ہیں جو ایک خاص قسم کا جال استعمال کرتے ہوئے ہر چھوٹی بڑی مچھلی پکڑ لیتے ہیں اور مقامی ماہی گیروں کے ہاتھ کچھ نہیں لگنے دیتے۔ باریک سوراخوں والے اس جال کو مقامی زبان میں "گوجا نیٹ" کہا جاتا ہے۔ اسے بھاری وزن سے باندھ کر مشینوں کے مدد سے سمندر کی تہہ تک اتارا جاتا ہے جس کے باعث وہ "پانی میں موجود ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے"۔
باریک ہونے کی وجہ سے گوجا نیٹ نہ صرف مچھلیاں بلکہ ان کے انڈے اور ان کی خوراک کے طور پر کام آنے والے چھوٹے آبی جانور بھی باہر نکال لاتا ہے جس کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش رک جاتی ہے۔ اس لیے عبدالکریم سمجھتے ہیں کہ اس کا استعمال "گوادر کے ماہی گیروں سے مستقل طور پر اُن کا روزگار چھین رہا ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
سڑک بن رہی ہے: گوادر میں ایکسپریس وے کی تعمیر پرانے شہر کے باسیوں اور مچھیروں کے لیے وبالِ جان
نیشنل پارٹی کے آدم قادر بخش ان کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نیٹ استعمال کرنے والے ٹرالروں کی موجودگی کا گوادر میں ماہی گیری کے شعبے پر اتنا منفی اثر پڑا ہے کہ "گزشتہ ایک سال میں مچھلی کی صفائی ستھرائی وغیرہ کا کام کرنے والی 48 مقامی فیکٹریوں میں سے 40 بند ہو چکی ہیں"۔ تاہم دھرنے کے بعد اس صورتِ حال میں قدرے بہتری آئی ہے اور بند فیکٹریوں میں سے کچھ دوبارہ کھل گئی ہیں۔
حکومتِ بلوچستان نے صوبے کی بحری حدود میں ان ٹرالروں کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن ان میں سے کئی ایک بین الاقوامی پانیوں سے ہوتے ہوئے غیر قانونی طور پر صوبائی پانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دیگر ایسے ٹرالر سندھ کے ساحل کے راستے گوادر کے آس پاس آتے ہیں کیونکہ اُس صوبے میں ان کے سمندر میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے سمندر میں اُن کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ گوادر کے بوڑھے ماہی گیر کہتے ہیں کہ ایسے ٹرالر 1960 کی دہائی سے یہاں مچھلی پکڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1971 میں اس وقت کے بلوچستان کے گورنر غوث بخش بزنجو نے انہیں روکنے کے لیے ایک آرڈیننس بھی جاری کیا تھا۔ لیکن، ان ماہی گیروں کے مطابق، 1990 کی دہائی کے آخر سے ان کی سرگرمیوں میں دوبارہ شدت آ گئی ہے جس کے نتیجے میں 2000 سے مقامی ماہی گیر "ٹرالر بھگاؤ چولہا جلاؤ" نامی تحریک چلا کر ان کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔
تاہم گوادر ماہی گیر اتحاد نامی غیرسرکاری تنظیم کے جنرل سیکرٹری یونس انور کہتے ہیں کہ مقامی انتظامیہ کے پاس ان ٹرالروں کو روکنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں عموماً آٹھ سو ہارس پاور کا انجن لگا ہوتا ہے جبکہ ماہی گیری کے محکمے کے پاس اس سے آدھی طاقت کی کشتیاں بھی دستیاب نہیں۔ اس لیے جب محکمے کے لوگ ان کشتیوں پر ٹرالروں کا پیچھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو، یونس انوار کے بقول، "وہ ان تک پہنچ ہی نہیں پاتے"۔
اگر وہ کسی طرح ٹرالروں کے قریب پہنچ بھی جائیں تو "ان میں موجود لوگ اُن پر گرم پانی اور پتھر پھینکتے ہیں"۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی دفعہ ٹرالر والے سرکاری اہل کاروں کو سمندر میں یرغمال بھی بنا چکے ہیں۔
تاریخ اشاعت 25 جنوری 2022