پاکستان کی الیکٹرک وہیکل مارکیٹ میں ترقی کے امکانات اور رکاوٹیں

postImg

محمد بلال

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پاکستان کی الیکٹرک وہیکل مارکیٹ میں ترقی کے امکانات اور رکاوٹیں

محمد بلال

loop

انگریزی میں پڑھیں

دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی برقی گاڑیاں (ای ویز) مقبول تو ہیں لیکن ابھی تک ان کی تعداد محدود ہے۔الیکٹرک  گاڑیوں کے فروغ میں کچھ ایسی رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں دور کیے بغیر ماحول دوست ٹرا نسپورٹ کا حصول نا ممکن ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے مطابق، پاکستان میں تقریبا 43 فیصد فضائی آلودگی آٹوموبائل سے آتی ہے۔ الیکٹرک وہیکلز ماحول دوست متبادل پیش کرتی ہیں۔

متعدد کمپنیوں نے پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز لانے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ چینی آٹوموٹو کمپنی ایم جی موٹرز نے حال ہی میں ملک میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں متعارف کرانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

ایک اور قابل ذکر کمپنی ہنڈائی پاکستان میں اپنا کاروبار لانچ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ان کمپنیوں کے لیے پاکستانی مارکیٹ پرکشش ہے۔

سرمایہ کاروں کی دلچسپی کے باوجود، بہت سے مسائل ہیں جن کا الیکٹرک وہیکل کمپنیوں کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسے معاون انفراسٹرکچر کی کمی، خاص طور پر چارجنگ سٹیشن۔ ایک مضبوط چارجنگ نیٹ ورک کے بغیر الیکٹرک وہیکلز کے خریداروں  کے خدشات ان گاڑیوں کو خریدنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

ایک اہم عنصر الیکٹرک وہیکلز کی زیادہ قیمت ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک عام شہری کی استطاعت سے باہر ہو جاتی ہیں۔

اگرچہ یہ 'صاف ستھری' گاڑیاں عام طور پر روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں سستی پڑتی ہیں، لیکن ان کی قیمت بہت زیادہ ہےجو  2016ء کے بعد سے 15 ہزا ر ڈالر کے آس پاس ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اوسط آمدنی نسبتاً کم ہے، اونچی قیمتیں قوت خرید  کو محدود کرتی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کا مستقبل روشن ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بی وائی ڈی جیسی بڑی چینی کمپنیاں قیمتوں کے مسئلے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کمپنی نے 2023ء میں سب سے زیادہ الیکٹرک وہیکلز تیار کرکے ٹیسلا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

بی وائی ڈی رواں سال کے اوائل میں پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے مقامی ہولڈنگ کمپنی میگا کونگلو میریٹ گروپ کے ساتھ شراکت داری کر رہا ہے۔

آٹو سیکٹر کے ماہر اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM)کے سابق چیئرمین مشہود خان، بی وائی ڈی کے پاکستان آنے کی خبر کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مثبت پیش رفت قرار دیتے ہیں۔

لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بی وائی ڈی، پاکستان کو بجلی سے چلنے والے نقل و حمل کے آپشنز کی طرف منتقل کرنے میں مدد اور الیکٹرک وہیکلز کو سستا بنانے میں سہولت فراہم کرے گی۔

مشہود خان آٹو موٹو پارٹس کے لئے مینوفیکچرنگ کمپنی چلاتے ہیں۔ وہ  کہتے ہیں کہ بی وائی ڈی نے اگر پاکستان میں پیداوار شروع کردی تو اس سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ملک کی برآمدی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

الیکٹرک موٹر سائیکل کمپنی ٹرانسن ٹیکنو موٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر عامر اللہ والا کہتے ہیں کہ الیکٹرک وہیکلز مستقبل کی ٹیکنالوجی ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اگر ہر ملک کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے اپنے اہداف کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اسے الیکٹرک وہیکلز کو فروغ دینا ہوگا۔

" ای ویز کے فروغ کے لیے کچھ شعبوں میں بہتری لانا ہوگی۔ بیٹری کی مدت کو بڑھانا اور قیمت کو کم کرنا ہوگا۔"

انہوں نے کہا اگرچہ ٹیکنالوجی کی ترقی میں کوششیں جاری ہیں، لیکن فی الحال ای بائیکس کی رینج 80-100 کلومیٹر تک محدود ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چارجنگ انفراسٹرکچر بھی ایک چیلنج ہے۔ بنگلوں میں رہنے والوں کے لئے چارجنگ کوئی مسئلہ نہیں لیکن اپارٹمنٹس میں رہنے والی بڑی آبادی کے لئے ای بائیک چارج کرنا آسان نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے ممالک میں ای بائیکس تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں تاہم پاکستان میں اس کے لیے حکومتی تعاون ضروری ہے۔

عامر اللہ والا کہتے ہیں کہ اگر ای ویز کی تیاری پاکستان میں شروع ہوجاتی ہے تو اس سے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوگا۔

ایم جی موٹرز پاکستان کے جنرل منیجر آصف احمد کا خیال ہے کہ کچھ حلقے نہیں چاہتے کہ پاکستان الیکٹرک وہیکلز کی طرف منتقل ہو۔

"ہمارے ٹرانسپورٹ سیکٹر کے کاروبار کا بڑا حصہ تیل کے بزنس سے جڑا ہے۔ تیل کی خریداری سے لے کر اسے پٹرول پمپوں تک پہچانے تک ایک پوری سپلائی چین ہے جس کا مفاد یہی ہے کہ فوسل فیول کا استعمال ہوتا رہے"۔

وہ کہتے ہیں کہ جاپانی کمپنیاں پاکستان کی آٹو انڈسٹری پر حاوی ہیں جس کی وجہ سے وہ ہائبرڈ  گاڑیوں کے حق میں پالیسی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

آصف احمد کا کہنا ہے آپ ملک میں ای ویز انقلاب چاہتے ہیں تو الیکٹرک گاڑیوں کی قیمت کم کرنا ہوگی۔ ایک اعلیٰ پائے کی ای وی کی قیمت 50 لاکھ روپے سے کم ہونی چاہیے۔ اسی طرح الیکٹرک موٹر سائیکل کی صنعت کا فروغ بھی ضروری ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ الیکٹرک وہیکلز کو عالمی سطح پر بھی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں ان کی تیز رفتار مارکیٹ کو محدود کرنے کی بین الاقوامی پالیسیاں، خام مال پر پابندیاں - خاص طور پر لیتھیم کے لیے - اور ہائیڈروجن سیل ٹیکنالوجی جیسی مختلف ٹیکنالوجیوں سے مقابلہ شامل ہے۔

کچھ کمپنیاں بیٹری سے چلنے والے گاڑیوں کے مقابلے میں ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیاں بنا رہی ہیں۔

ملک کی گاڑیاں بنانے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے آصف احمد کا خیال ہے کہ ان چیلنجوں کے باوجود پاکستان اس صنعت کا اہم حصہ بن سکتا ہے۔

" اگرچہ ای وی گاڑیاں تکنیکی طور پر جدید ہیں پاکستان الیکٹرک وہیکلز کے لئے کچھ پرزے تیار کر سکتا ہے جو بڑی تعداد میں برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے سرمایہ کاری اور بہتر پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ ایم جی موٹرز نے پاکستان میں گاڑیوں کی مکمل اسمبلنگ کا نظام لگا دیا ہے مگر یہ صرف اسی صورت میں شروع ہوسکتا ہے جب مقامی طور پر طلب زیادہ ہو۔

الیکٹرک موبلٹی: ہائبرڈ گاڑیاں کمی کو پورا کرتی ہیں

پاکستان میں ٹویوٹا مارکیٹ لیڈر ہے۔ یہ پاکستان میں ہائبرڈ کاروں کی تیاری کا آغاز کرنے والی پہلی کمپنی ہے جس نے اپنی ہائبرڈ 1800 سی سی ایس یو وی کرولا کراس متعارف کرائی ہے۔ عالمی سطح پر، ٹویوٹا نے اپنے پریئس ( Prius )ماڈل کے ساتھ ہائبرڈ گاڑیوں کا آغاز کیا تھا، اس میں عام انجن الیکٹرک موٹر کے ساتھ جڑا ہے۔ یہ تکنیک ایندھن کے استعمال میں روایتی کار کے مقابلے 50 فیصد بہتر ثابت ہوئی ہے۔

لیکن بیٹری ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کے بارے میں خدشات کے باعث کمپنی مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہے۔

کمپنی الیکٹرک وہیکلز انفراسٹرکچر میں موجود ناکافی سہولتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کی وجہ سے خریدار ان نئی گاڑیوں کو خریدنے سے محتاط رہتے ہیں۔ ٹویوٹا انٹرنیشنل نے بھی موجودہ ای وی ٹکنالوجی کی حدود کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں

ٹویوٹا نے الیکٹرک وہیکلز کے متبادل کے طور پر ہائیڈروجن فیول سیل ٹیکنالوجی میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ہائیڈروجن ایندھن کے خلیات، ہائیڈروجن گیس کو بجلی میں تبدیل کرتے ہیں جس سے صرف آبی بخارات پیدا ہوتے ہیں۔

کمپنی ہائیڈروجن کو روایتی فوسل فیول کے مقابلے میں مفید، صاف ستھرے اور زیادہ ورسٹائل متبادل کے طور پر دیکھتی ہے، کیونکہ ہائیڈروجن کو مختلف قابل تجدید ذرائع سے تیار کیا جا سکتا ہے۔

ٹیوٹا کے مطابق روایتی گاڑیوں کی طرح ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیوں میں تیزی سے ایندھن بھرا جاسکتا ہے، جبکہ ای وی کو چارجنگ کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن ایندھن سیل گاڑیاں، بیشتر الیکٹرک گاڑیوں کے مقابلے میں طویل فاصلہ طے کرتی ہیں۔

تاہم، ہائیڈروجن ایندھن سیل ٹیکنالوجی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔

ہائیڈروجن کی پیداوار اور ذخیرہ کرنے پر اچھی خاصی لاگت آتی ہے اور ہائیڈروجن ایندھن بھرنے والے سٹیشنوں کے لئے فی الحال بہت محدود بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔

ان چیلنجز نے الیکٹرک گاڑیوں کے مقابلے میں ہائیڈروجن گاڑیوں کو اپنانے کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔

الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں ٹویوٹا کا محتاط نقطہ نظر موجودہ ٹیکنالوجی کی حدود اور بنیادی ڈھانچے کے چیلنجوں کے بارے میں خدشات کی وجہ سے ہے۔

تاہم ، ہائیڈروجن گاڑیوں کا مستقبل ہائیڈروجن کی پیداوار ، اسٹوریج اور بنیادی ڈھانچے سے وابستہ چیلنجوں پر قابو پانے پر منحصر ہے۔

ٹو وہیکلز ای وی منتقلی کے لئے اچھی طرح تیار ہیں

پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز میں سب سے زیادہ مقبولیت ای بائیکس کو ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے سال 32 کمپنیوں نے انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی، جن میں سے زیادہ تر ٹو ویلرز کے لیے تھیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

الیکٹرک گاڑیوں میں بین الاقوامی سطح پر اضافے کے باوجود، اب تک اس شعبہ میں بہت کم دلچسپی رہی ہے، جس کی زیادہ تر وجہ قیمت اور بنیادی ڈھانچے کی رکاوٹیں ہیں۔

اٹلس ہونڈا نے گزشتہ سال نومبر میں 'سافٹ' لانچ کے دوران اپنے الیکٹرک سکوٹر 'بینلے ای' کی رونمائی بھی کی تھی۔

کمپنی کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسے ڈلیوری اور لاجسٹکس کمپنیوں جیسے بڑے اداروں کو فروخت کیا جائے گا۔ کمپنی سافٹ لانچ کے ساتھ الیکٹرک وہیکلز کے لئے مارکیٹ کی جانچ کر رہی ہے۔

ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسمبلرز (اے پی ایم اے) کے چیئرمین محمد صابر شیخ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ موٹر سائیکل کے نئے خریدار ای وی بائیکس میں دلچسپی لے رہے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آیا یہ سستی اور قابل عمل ہوں گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ملک میں الیکٹرک موٹر سائیکلوں کی پیداوار شروع ہوگئی ہے اور یہ تعداد مزید بڑھے گی۔

"موٹر سائیکل استعمال کرنے والے، قیمتوں کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس گروپ ہیں۔ ایندھن کی اونچی قیمتیں اس گروپ پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہی ہیں لہذا، الیکٹرک بائیکس انہیں بہت زیادہ ترغیب دیتی ہیں۔"

حکومت کے پاس کیا ہے؟

حکومت نے مختلف پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعہ الیکٹرک وہیکلز کے لئے کچھ دلچسپی ظاہر کی ہے۔ مثال کے طور پر  الیکٹرک وہیکلز مینوفیکچررز اور خریداروں کے لئے ٹیکس مراعات کا اعلان کیا گیا ہے، جس سے الیکٹرک وہیکلز کی قیمت کو کم کرنے اور صارفین کے لئے زیادہ سستی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

حکومت نے پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کی تیاری، درآمد اور استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے 2020ء میں الیکٹرک وہیکل پالیسی متعارف کرائی تھی۔ پالیسی کا مقصد کاربن کے اخراج کو کم کرنا، فضائی معیار کو بہتر بنانا اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔

الیکٹرک وہیکل پالیسی الیکٹرک بسوں، ٹرکوں اور مسافر کاروں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی سے مکمل استثنیٰ کے ساتھ الیکٹرک بائیک اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی کی کم شرح کو ظاہر کرتی ہے۔ پالیسی کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں کو پانچ سال کی مدت کے لئے روڈ ٹیکس ادا کرنے سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

حکومت نے سڑک پر الیکٹرک وہیکلز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں ای وی چارجنگ سٹیشنوں کا نیٹ ورک تیار کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

یہ پالیسی الیکٹرک وہیکلز اور ان کے پرزوں کی مقامی مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس میں خام مال اور الیکٹرک وہیکل مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے پرزوں پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی جیسی مراعات بھی شامل ہیں۔

ای وی بیٹریوں کی مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لئے خام مال اور بیٹری کی پیداوار میں استعمال ہونے والے سامان پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی جیسی مراعات بھی پالیسی کا حصہ ہیں۔

پاکستان میں حکومتی پالیسیاں دو دھاری تلوار بھی ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ مراعات الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں مگر غیر متوازن حکمت عملی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی کمی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک مستحکم اور معاون ریگولیٹری ماحول پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔

تاریخ اشاعت 26 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.