گزشتہ دنوں ہونے والے دسویں قومی مالیاتی کمیشن کے پہلے اجلاس ہی میں صوبہ سندھ اور مرکز کے مابین شدید اختلاف سامنے آیا جس کا سبب یہ تجویز تھی کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سابق قبائلی علاقوں کے لیے ترقیاتی فنڈ باقی صوبوں کے مالی حصے سے کاٹے جائیں۔ اس موقع پر سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان کا صوبہ کسی بھی صورت میں وفاقی مالیات میں اپنے حصے سے دستبردار نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ رواں مالی سال میں وفاق پہلے ہی سندھ کے حصے سے 80 ارب روپے کاٹ چکا ہے جس سے اس کے مالیاتی امور بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
اجلاس میں خیبر پختونخوا کی نمائندگی کرنے والے صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کا کہنا تھا کہ ان کے صوبے کا حصہ بننے والے قبائلی علاقوں میں سرمایہ کاری کی شدید ضرورت ہے کیونکہ وہاں رہنے والے 50 لاکھ لوگ پچھلے 20 برس سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
اس موقع پر بلوچستان نے بھی اپنے مالیاتی حصے میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ اس نے اپنے مالی وسائل میں سے 250 ارب روپے دہشت گردی کے خلاف استعمال کیے ہیں اس لیے وفاق اور باقی صوبے اس کی محرومی کا خیال کریں۔
سابق سینیٹر، سیاسی رہنما اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے سابق سربراہ افراسیاب خٹک اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''2010 کے بعد آئینی طور پر ضروری دو قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ تاحال آ ہی نہیں سکے۔ اس پر وفاقی حکومت صوبوں کو ملنے والی مالی وسائل سے بھی کٹوتی کر رہی ہے جس سے ان میں یہ احساس جنم لیتا ہے کہ وفاق انہیں ان کے جائز مالی حصے سے محروم رکھنا چاہتا ہے''۔
ماہر معاشیات اور قومی مالیاتی کمیشن میں بلوچستان کے تکنیکی نمائندے ڈاکٹر قیصر بنگالی مالی وسائل کی تقسیم پر اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کی رو سے مرکز نے بہت سی وزارتیں ختم کر کے انہیں صوبوں کے حوالے کرنا تھا اور اس طرح اپنے اخراجات بچانا تھے۔ ''مگر ہوا یوں کہ نام کی تبدیلی کے ساتھ یہ وفاقی وزارتیں بدستور قائم ہیں اور چونکہ وفاق اپنے اخراجات کم نہیں کرتا نتیجتاً اسے ملکی وسائل میں صوبوں کا حصہ کم کرنا پڑتا ہے''۔
تاہم مالی وسائل کی تقسیم پر وفاق اور صوبوں میں اس طرح کے اختلافات نئے نہیں ہیں۔ اس مسئلے کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا جب ملک کے مشرقی بازو (اب بنگلہ دیش) اور مرکز میں قومی زبان، آئین سازی، سیاسی نمائندگی اور وسائل کی تقسیم پر ایسے اختلافات نے جنم لیا جو 25 سال بعد ملک ٹوٹنے پر منتج ہوئے۔ پچھلی نصف صدی میں ان مسائل کو حل کرنےکی چند سنجیدہ کوششیں بھی ہوئیں جن میں 1973 کا آئین اور 18ویں آئینی ترمیم خاص طور پر نمایاں ہیں تاہم اس کے باوجود مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مالی اور قدرتی وسائل کی تقسیم پر سنجیدہ نوعیت کے اختلافات تا حال برقرار ہیں۔
حالانکہ 1940 کی قرار دادِ لاہور، جو اب قرار دادِ پاکستان کہلاتی ہے اور جسے قیام پاکستان کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، میں مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کے ضمن میں واضح طور پر لکھا تھا کہ صوبے اپنے معاملات چلانے میں خودمختار ہوں گے۔ اس کے آخری نکتے میں کہا گیا تھا کہ "اس اجلاس کی عاملہ کمیٹی قرار داد کے بنیادی اصولوں کے مطابق ملکی دفاع، خارجہ امور، مواصلات، کسٹم اور دیگر ضروری معاملات کے حوالے سے آئین سازی کا منصوبہ وضع کرے گی"۔ یہ نکتہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مندرجہ بالا امور کے علاوہ باقی تمام معاملات پر صوبوں کا اختیار چلے گا۔
اس سے قبل مارچ 1929 میں قائداعظم نے نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے مشہور 14 نکات پیش کیے تھے جن میں برطانوی ہند کے تمام صوبوں کو مساوی سطح پر مساوی خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح 1946 میں قائداعظم نے ہندوستان کی خودمختاری کے حوالے سے برطانوی کابینہ کے پیش کردہ اس منصوبے کی بھی حمایت کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ''امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہوں گے''۔ لیکن ڈاکٹر بنگالی کہتے ہیں کہ ہماری تاریخ کے آغاز ہی سے اس اصول کی خلاف ورزی ہوتی چلی آئی ہے۔ "مثال کے طور پر جب پاکستان بنا تو صوبائی حکومتوں کو سیلز ٹیکس لگانے کا اختیار تھا لیکن آزادی کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے ہنگامی حالات کے باعث عارضی طور پر اس ٹیکس کو مرکز کے اختیار میں دے دیا۔ آج 72 سال بعد بھی یہ وفاق کے پاس ہی ہے''۔
جب صوبوں کی خوداختیاری کی بات ہو تو اس میں مالی اور قدرتی وسائل پر اختیار کی خاص اہمیت ہے کیونکہ صوبائی خود مختاری دراصل مالی خود مختاری ہی ہوتی ہے۔ برطانوی راج سے آزادی کے بعد پاکستان کے پاس اس خودمختاری کو یقینی بنانے کا ایک واضح موقع موجود تھا۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کے بقول تقسیم برصغیر کے نتیجے میں انڈیا مرکزی طور پر ایک ایسی مضبوط ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا جس نے بعد میں صوبے بنائے جبکہ پاکستان میں کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسی ریاست کے طور پر وجود میں آیا جس میں مرکزی حکومت کو ملنے والے اختیارات اصل میں صوبوں سے لیے گئے تھے۔ ''اسی لیے یہاں صوبوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے ان کے یہ اختیارات واپس کرنا اور قومی وسائل میں انہیں جائز حصہ دینا لازمی ہے''۔
صوبوں میں وسائل کی تقسیم کا مسئلہ
لیاقت علی خان نے 1947 میں وفاق اور صوبوں میں معاشی اختلافات کے تدارک کے لیے ایک سرکاری افسر جیریمی ریزمین سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین محصولات کی تقسیم کا طریقہ کار وضع کرنے کو کہا۔ انہوں نے 1952 میں ریزمین ایوارڈ کے نام سے ایک فارمولا بنایا جس کے تحت صوبوں سے جمع ہونے والے سیلز ٹیکس کا 50 فیصد حصہ مرکزی حکومت کو دیا گیا۔ 1961 اور 1964کے دو مالیاتی ایوارڈز میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں اسی طریقے کے تحت ہی محصولات تقسیم ہوئے۔
1973 کے آئین میں آرٹیکل 160 کے تحت قومی مالیاتی کمیشن کو ایک مستقل ادارے کی حیثیت دے دی گئی۔ اس آرٹیکل کے مطابق ہر پانچ سال کے لیے نئے قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل لازم ہے تا کہ تمام وفاقی اکائیوں کی متفقہ رائے سے مالیاتی وسائل کی تقسیم کا ایوارڈ منظور کیا جائے۔
اس انتظام کے تحت 2010 تک صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم آبادی کے تناسب سے ہوتی تھی جس کے حساب سے بڑا حصہ صوبہ پنجاب کو ملتا تھا۔ اس وقت تک چھوٹے صوبے پنجاب کو وسائل میں زیادہ حصہ ملنے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے چلے آ رہے تھے اور آبادی کو ایوارڈ کی بنیاد بنانے پر معترض رہتے تھے۔
2010 میں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں وفاق کاحصہ کم کر کے 42.5 فیصد اور صوبوں کا مشترکہ حصہ بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا گیا۔ اسی طرح مختلف معاشی اور سماجی اشاریوں پر مبنی ایک تفصیلی کلیہ بنایا گیا جس کے تحت صوبوں کو آبادی کی بنیاد پر 82 فیصد، غربت کی بنیاد پر 10.3 فیصد، ٹیکس اور ریونیو جمع کرنے کی بنیاد پر 5 فیصد اور رقبے کی بنیاد پر 2.7 فیصد وسائل دیے جانے پر اتفاق رائے ہوا۔اس نئے کلیے کے تحت پنجاب کے حصے کی رقم میں 5.62 فیصد کمی ہوئی جو دیگر صوبوں میں تقسیم کی گئی۔
افراسیاب خٹک کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ''چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے آبادی، غربت، پسماندگی، پیداوار اور جغرافیائی وسعت کو بھی وسائل کی تقسیم کی بنیاد بنایا گیا لیکن اب بھی کسی صوبے کو ملنے والے مالی وسائل میں 82 فیصد معیار آبادی ہی کو بنایا گیا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے''۔
لیکن حالیہ قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کے دوران کچھ نئے مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال سندھ نے کمیشن کے ارکان کی تقرری پر اعتراض اٹھایا۔ اس کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر صدر مملکت گورنروں اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے مشاورت کے بعد صوبوں کے ارکان مقرر کرنے کی منظوری دیتا ہے لیکن موجودہ کمیشن کے ممبران کا تقرر کرتے ہوئے صدر پاکستان کی طرف سے اس معاملے پر صوبائی حکومت کی رائے نہیں لی گئی۔
دوسری طرف بلوچستان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدان خیبر پختونخوا سے بلوچستان منتقل ہو چکا ہے لہٰذا ریاست کے کُل قابلِ تقسیم مالی ذرائع میں بلوچستان کا حصہ بڑھایا جائے۔
اسی طرح گزشتہ سال وفاقی حکومت نے بھی قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کی قرار داد سینیٹ میں پیش کی تاہم یہ قرار داد منظور نہ ہو سکی کیونکہ چاروں صوبوں کے نمائندوں نے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے صوبائی اختیار سلب کرنے کی کوشش قرار دیا۔
غیر مالی وسائل کی تقسیم
صوبوں کو وفاق کی جانب سے پانی کی تقسیم کے طریق کار پر بھی سنگین اعتراضات ہیں۔ صوبہ سندھ نے 1991 میں کیا جانے والا پانی کی تقسیم کا معاہدہ تا حال قبول نہیں کیا اور اس حوالے سے اس نے مشترکہ مفادات کونسل کے اکثریتی فیصلے کو اب تک اختلافی نوٹ کے ساتھ ہی قبول کیا ہے۔ صوبہ سندھ معاہدے کے پیراگراف دو کے تحت پانی کی تقسیم چاہتا ہے جس سے پنجاب کا حصہ 40 لاکھ سے 50 لاکھ ایکڑ فٹ تک کٹ جائے گا جبکہ پنجاب کا اصرار ہے کہ پانی کی تقسیم پیراگراف نمبر 14 کے تحت ہو جس کی رو سے اسے آبپاشی کے لیے دوسرے صوبوں سے زیادہ پانی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم کی مجوزہ تعمیر تین دہائیوں سے صوبوں اور وفاق کے مابین وجہ نزاع بنی ہوئی ہے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف رہے ہیں کیونکہ ان کا مؤقف ہے کہ یہ ڈیم پنجاب کو فائدہ پہنچائے گا جبکہ ان کے حصے میں صرف سیلاب اور خشک سالی آئے گی۔ بجلی کی تقسیم کے نظام پر بھی صوبوں کو بہت سے اعتراضات ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا اختیار ان کے پاس ہونا چاہیے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا کا مؤقف ہے کہ بجلی کی تقسیم کا فارمولا بجلی کی پیداوار کی بنیاد پر ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح چھوٹے صوبوں کو بجلی کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس مطالبے کے تحت چونکہ خیبر پختونخوا اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے اس لیے وہاں لوڈشیڈنگ کا جواز نہیں بنتا۔
افراسیاب خٹک سمجھتے ہیں کہ اس معاملے پر وفاق طویل عرصہ سے خیبر پختونخوا کا حق دبائے بیٹھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''1991 میں اے جی این قاضی فارمولے کے تحت خیبر پختونخوا کو اس کے ہاں پیدا ہونے والی بجلی پر ہر سال چھ ارب روپے منافع دینا طے پایا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ وفاقی حکومت کے علاوہ کسی دور میں بھی وفاقی حکومت نے یہ رقم ادا نہیں کی''۔
اسی طرح صوبہ سندھ کا کہنا ہے کہ تھر میں کوئلے سے چلنے والے 660 میگاواٹ کے پہلے پاور پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی فروخت کا اختیار بھی صوبائی حکومت کو دیا جائے۔
افراسیاب خٹک کا یہ بھی کہنا ہے کہ ''بلوچستان کو بھی اس کے ہاں پیدا ہونے والی قدرتی گیس کی دستیابی اور اس کی رائلٹی کے معاملے پر سنگین شکایات ہیں۔ بلوچستان کی گیس پورے پاکستان میں استعمال ہوتی رہی ہے لیکن سب سے آخر میں خود بلوچستان پہنچی ہے''۔
اس وقت ملک میں پیدا ہونے والی مجموعی قدرتی گیس میں سب سے زیادہ حصہ (68 فیصد) سندھ کا ہے جبکہ بلوچستان کا حصہ 15 فیصد، پنجاب کا 5 فیصد اور خیبر پختونخوا کا 12 فیصد ہے۔ تاہم پنجاب سب سے زیادہ گیس استعمال کرتا ہے۔ اس استعمال میں اس کا حصہ 45 فیصد، سندھ کا 42 فیصد، خیبر پختونخوا کا 7 فیصد اور بلوچستان کا صرف 6 فیصد ہے۔
قدرتی وسائل کی تقسیم اور استعمال کے حوالے سے صوبہ سندھ کا مؤقف ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت کسی صوبے میں موجود قدرتی وسائل پر اسی صوبے کا پہلا حق ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والی کسی چیز کی زائد مقدار ہی کو دیگر صوبوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس مؤقف کی بنا پر سندھ کو شکایت ہے کہ وہ اپنے استعمال سے زیادہ گیس پیدا کرتا ہے تاہم اس کے باوجود اس کی صنعتوں اور سی این جی سٹیشنوں کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
لیکن مرکزی حکومت کا کہنا ہے چونکہ پاکستان وفاقی ریاست ہے اس لیے کسی بھی صوبے سے نکلنے والی قدرتی گیس ملک کے ہر شہری کو فراہم کی جانی چاہیے۔
چین کے تعاون سے تعمیر کی جانے والی گوادر بندرگاہ پر وفاقی عمل داری بھی بلوچستان کو قبول نہیں۔ وہاں کی مقامی آبادی کا مطالبہ ہے کہ بندرگاہ اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بلوچستان کو ملنی چاہیے اور اس کے حوالے سے جتنے بھی ملکی اور غیر ملکی معاہدے کیے گئے ہیں انہیں پارلیمینٹ میں لایا جانا چاہیے۔
اس حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جہانزیب جمالدینی کہتے ہیں کہ ''بلوچستان کے پاس گوادر بندرگاہ کی صورت میں آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھا لیکن اسے وفاق نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے''۔
اسی طرح بلوچستان اور خیبر پختونخوا چین کے تعاون سے بنائے جانے والے اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے کو بھی صرف پنجاب کے مفاد میں قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں تاریخی طور پر پسماندہ صوبوں کے لیے کچھ خاص سہولتیں نہیں ہیں۔
جہانزیب جمالدینی کے الفاظ میں ''اس منصوبے کے مغربی روٹ کے حوالے سے بلوچستان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ بھی ایفا نہیں ہوئے''۔ ان کے خیال میں ''ایسے اقدامات سے فیڈریشن کمزور ہوتی ہے''۔
سندھ کا بھی کہنا ہے کہ سی پیک کے تحت چھوٹے صوبوں میں بنائے جانے والے منصوبوں کے بارے میں اسے کچھ نہیں بتایا گیا۔ اگرچہ صوبائی حکومت کے مسلسل احتجاج کے بعد کیٹی بندر کی بحالی اور کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو سی پیک کا حصہ بنایا گیا تاہم سندھ میں ہوا اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے مواقع موجود ہونے کے باوجود مرکزی حکومت نے ان منصوبوں کو سی پیک میں شامل نہیں کیا۔
اسی حوالے سے ایک اور تنازعہ گزشتہ سال سامنے آیا جب مرکزی حکومت نے سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر واقع دس جزائر کو وفاقی عمل داری میں لینے کے لیے پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی نامی آرڈیننس جاری کیا۔ ان جزائر میں دو سندھ میں جبکہ آٹھ بلوچستان میں واقع ہیں۔ اس آرڈیننس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے سندھ نے یہ مؤقف اپنایا کہ آئین کے تحت یہ جزائر صوبوں کی ملکیت ہیں اور ان میں ترقیاتی کاموں سمیت ہر فیصلے کا اختیار صوبائی حکومتوں کو حاصل ہے۔ اگرچہ سندھ کے احتجاج کے بعد مرکزی حکومت نے کراچی کے ساحل کے قریب دو جزائر پر ترقیاتی کاموں کا حکم نامہ واپس لے لیا تاہم اس بارے میں صوبے کے خدشات رفع نہیں ہوئے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 26 مارچ 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 25 جنوری 2022