''شوہر نشے سے باز نہ آیا تو خود بھی ہیروئن پینا شروع کر دی''

postImg

لائبہ حسن

postImg

''شوہر نشے سے باز نہ آیا تو خود بھی ہیروئن پینا شروع کر دی''

لائبہ حسن

پشاور سے تعلق رکھنی والی نجمہ (فرضی نام) اور ان کے شوہر سیف الدین کارخانو بازار میں شیمپو کے ساشے بیچتے ہیں۔ اس کام سے انہیں روزانہ تین چار سو روپے کمائی ہوتی ہے جسے وہ ہیروئن اور چرس کی خریداری پر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی نشے کے عادی ہیں اور کارخانو بازار ہی ان کا مستقل ٹھکانا ہے جہاں انہیں نشہ آسانی سے مل جاتا ہے۔

چار سال پہلے نجمہ کی شادی ہوئی تو انہیں پتا چلا کہ ان کے شوہر سیف ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ نجمہ تین سال تک شوہر کی یہ عادت چھڑانے کی ناکام کوشش کرتی رہیں۔ آخر تنگ آ کر انہوں نے شوہر کو دھمکی دی کہ اگر اس نے نشہ نہ چھوڑا تو وہ خود بھی ہیروئن پینا شروع کر دیں گی۔ شوہر پر ان کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا تو نجمہ نے اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا۔

دھول سے اٹی داڑھی والے دراز قد سیف الدین کہتے ہیں کہ ''میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ میری بیوی بھی نشہ کرے۔ میں اس کی دھمکی کو مذاق سمجھتا تھا، لیکن اب میری وجہ سے وہ بھی نشے کی عادی ہو گئی ہے''۔ لمبی سیاہ چادر میں خود کو لپیٹے نجمہ کا کہنا ہے کہ ''ہم دونوں نشے کی عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس اپنا علاج کرانے کے لیے مالی وسائل نہیں ہیں۔''

پشاور میں منشیات فروشوں اور نشے کے عادی افراد کی سب سے بڑی تعداد پشاور اور قبائلی ضلع خیبر کی سرحد پر واقع کارخانو بازار میں ملتی ہے۔ چونکہ یہاں نشہ آسانی سے دستیاب ہوتا ہے اسی لیے منشیات کے عادی افراد یہیں ڈیرا لگا لیتے ہیں۔ اس ضلع کو پہلے خیبر ایجنسی کہا جاتا تھا جو وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات کا حصہ تھا۔

یہاں مردوں کے ساتھ خواتین بھی کھلے عام نشہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس جگہ ہزار کے لگ بھگ نشئی پائے جاتے ہیں جو عام طور پر سڑکوں کے کنارے یا پُلوں کے نیچے رہتے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ نے گزشتہ سال 'نشے سے پاک پشاور' مہم چلائی تھی جس کے تحت نشے کے عادی تقریباً ڈھائی ہزار افراد کو راستوں سے اٹھا کر بحالی مراکز میں منتقل کیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود شہر کی سڑکوں پر اور چوراہوں میں نشہ کرنے والوں کی تعداد میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔

جمرود پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او شاہد خالد دعویٰ کرتے ہیں کہ پولیس نے گزشتہ مہینے کارخانو بازار میں کارروائی کر کے ناصرف متعدد منشیات فروشوں کو گرفتار کیا بلکہ ان کے ساتھ اس مکروہ دھندے میں شامل بعض پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی گئی۔

تاہم پشاور کی رہنے والی مہناز پولیس کو ہی اس مسئلے کی جڑ قرار دیتی ہیں۔ ان کا شوہر زاہد اللہ منشیات کا عادی ہے جو اب گھر چھوڑ کر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے باہر اپنے جیسے نشیئوں کے ساتھ رہتا ہے۔ مہناز کہتی ہیں کہ ''میرا شوہر کارخانو بازار سے نشہ آور مواد لاتا اور استعمال کرتا ہے۔ اگر پولیس اپنا کام دیانت داری سے کرتی اور اس بازار میں منشیات فروشوں کے تمام اڈوں کو بند کر دیتی تو میرا گھر تباہ نہ ہوتا۔''

<p>خیبر پختونخوا میں 16 سے 64 سال عمر کے قریباً چار لاکھ 84 ہزار افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں<br></p>

خیبر پختونخوا میں 16 سے 64 سال عمر کے قریباً چار لاکھ 84 ہزار افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں

مہناز کو اپنی شادی کے چھ ماہ بعد پتا چلا کہ ان کا شوہر نشہ آور گولیاں اور انجیکشن استعمال کرتا ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ حاملہ ہوئیں تو انہیں امید تھی کہ بچے کی پیدائش کے بعد شوہر نشے سے باز آ جائے گا۔ لیکن زاہد نے نشے کی لت نہ چھوڑی اور مہناز کی زندگی مشکل ہوتی چلی گئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کا شوہر نشہ کرنے کے لیے گھر سے باہر جاتا اور رات گئے واپس آتا تھا۔ ابتدا میں وہ بچوں کو ساتھ لے کر سے ڈھونڈنے نکل جاتی تھیں۔ لیکن کچھ دیر کے بعد ان کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے شوہر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ نجمہ کی تین بیٹیاں ہیں جنہیں پالنے کے لیے وہ لوگوں کے کپڑے سیتی ہیں۔ ان کا شوہر کبھی کبھار گھر آتا ہے اور انہیں مارپیٹ کر جو شے ہاتھ لے لگے اٹھا لے جاتا ہے۔

انسداد منشیات و جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این او ڈی سی) کی 2012 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 52 لاکھ مرد اور 15 لاکھ خواتین منشیات کی عادی ہیں جن میں ایک لاکھ خواتین چرس، 17 ہزار ہیروئن، پانچ ہزار افیون جبکہ سات ہزار انجیکشن کے ذریعہ نشہ کرتی ہیں۔

معلومات تک رسائی کے صوبائی قانون، خیبر پختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت موصول ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق صوبے بھر میں 16 سے 64 سال عمر کے قریباً چار لاکھ 84 ہزار افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی عمریں 16 سے 64 سال کے درمیان ہیں۔ صوبائی ادارہ برائے انسداد منشیات کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 25 ہزار افراد انجیکشن کے ذریعے نشہ آور ادویات لیتے ہیں۔

اینٹی نارکوٹکس فورس کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں نشے کے عادی افراد میں ایک تہائی تعداد خواتین کی ہے لیکن علاج کے لئے ہر پانچ افراد میں سے ایک خاتون ہی کسی طبّی مرکز کا رُخ کرتی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات عمارہ اقبال گھریلو تشدد کو خواتین میں نشے کی ایک بڑی وجہ قرار دیتی ہیں۔ ان کہنا ہے کہ ان کے پاس علاج کے لیے آنے والی زیادہ تر خواتین بتاتی ہیں کہ گھریلو ناچاقی اور تشدد کے باعث وہ ذہنی سکون کے لئے نشہ آور ادویات یا منشیات کا استعمال کرتی ہیں۔''

یہ بھی پڑھیں

postImg

علاج یا نشہ: کنٹرولڈ آئٹمز میں شامل کیٹامین دوا کی ضرورت سے زیادہ درآمد کے پیچھے کیا راز ہے؟

ملک میں نشے کے عادی افراد کی تعداد میں اضافے کا تعلق پوست کی کاشت میں اضافے سے بھی ہے جس سے منشیات تیار کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں منشیات کی سمگلنگ کے موضوع پر 'منظم جرائم کے خلاف قومی اقدام' (این آئی او سی) کی رپورٹ کے مطابق 1978 میں ملک میں تقریباً 80 ہزار ایکڑ پر پوست کاشت ہوتی تھی جو 2000 تک بالکل ختم ہو گئی تھی لیکن اب اس کی کاشت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق 2007 میں پانچ ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پوست کاشت کی گئی تھی۔

پولیس وقتاً فوقتاً شہر بھر میں کارروائی کر کے نشے کے عادی افراد کو گرفتار کرتی رہتی ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات سعادت حسن کے مطابق اس وقت سنٹرل جیل پشاور میں ایسے قیدیوں کی تعداد 1,150 ہے جنہیں منشیات استعمال کرنے پر پکڑا گیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ظفیر گل کہتے ہیں کہ نشے کے عادی افراد کو اگر عدالت سے پہلی مرتبہ سزا ہوئی ہو تو عام طور پر انہیں پروبیشن قانون کے تحت رہا کر دیا جاتا ہے۔ یہ رہائی اس شرط پر ہوتی ہے کہ وہ اپنے پروبیشن افسر کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں گے۔ اس دوران اگر وہ کسی اور جرم کا ارتکاب کریں تو انہیں منشیات کے مقدمے میں بھی اپنی سزا پوری کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اگر وہ کوئی غلط قدم اٹھائے بغیر اپنی اصلاح کر لیں تو تین سال کے بعد ان پر مقدمہ ختم کر دیا جاتا ہے۔

تاریخ اشاعت 18 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ملٹی میڈیا جرنلسٹ لائبہ حسن نے یونیورسٹی آف پشاور سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ انسانی حقوق، مذہبی ہم آہنگی اور سماجی مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.