گجرات کے محلہ بخشوپورہ کے علی بھٹی روزانہ پینے کا پانی لینے کے لیے اپنے علاقے میں قائم واٹر فلٹریشن پلانٹ پر آتے ہیں۔ لیکن وہ اس پانی کے معیار سے مطمئن نہیں ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ کہنے کو فلٹر شدہ یہ پانی دراصل آلودہ ہے۔ لیکن ان کے گھر میں نلکے سے آنے والا پانی اس سے بھی زیادہ مضر صحت ہے اسی لیے وہ فلٹر کے پانی کو ہی غنیمت سمجھ کر لے جاتے ہیں۔
''نہ تو فلٹر پلانٹس کی مرمت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام ہے۔ ایسے حالات میں لوگ ان پلانٹس سے جو پانی بھرتے ہیں وہ صحت کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان پہنچاتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ بے خبری میں اور دیگر بے چارگی میں یہ پانی پیے جا رہے ہیں۔''
مقامی شہری محمد تجمل منیر ان کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلٹریشن پلانٹ کا پانی گھر میں بورنگ والے نلکے سے قدرے بہتر ہوتا ہے لیکن اسے پوری طرح شفاف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں بھی کئی طرح کے ذرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔
گجرات کی تقریباً پانچ لاکھ آبادی کو ان دنوں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ شہر میں بہت سے مقامات پر فلٹریشن پلانٹ نصب ہیں لیکن بیشتر جگہوں سے یہی شکایات سامنے آتی ہیں کہ فلٹریشن پلانٹ ناکارہ ہو چکے ہیں یا پانی کو صاف نہیں کر رہے۔
محکمہ واٹر سپلائی کے فورمین قمر عباس کا کہنا ہے کہ شہر میں پانی کی فراہمی کے لیے زیرزمین بچھی پائپ کی لائنوں کی میعاد تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ یہ پائپ جگہ جگہ سے ٹوٹ گئے ہیں اور بہت سے مقامات پر ان کے قریب سے گزرنے والی سیوریج کی پائپ لائنوں کی لیکیج کے نتیجے میں گندا پانی بھی ان میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ کئی مسائل کی وجہ سے فلٹریشن پلانٹ درست کام بھی نہیں کر رہے چنانچہ پائپ لائنوں کا گندا پانی فلٹر ہوئے بغیر پلانٹس کی ٹونٹیوں میں آ رہا ہے۔
شہر میں صاف پانی کے معیار، واٹرسپلائی کی موٹروں (ٹربائینوں )کی چیکنگ اور پانی کے پائپوں میں لیکیج کا جائزہ لینا اور ان کی تعمیرومرمت کے بارے میں متعلقہ حکام کو آگاہ کرنا ڈسٹرکٹ واٹر ٹیسٹنگ لیب کی ذمہ داری ہے۔
اس ادارے میں مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن اسسٹنٹ کی حیثیت سے فیلڈ میں چھ سال کام کرنے والے محمد شعیب اللہ کا کہنا ہے کہ شہر میں تقریباً سو واٹر فلٹریشن پلانٹس موجود ہیں اور مختلف جگہوں پر تقریباً ڈھائی سو موٹریں نصب ہیں جو پانی کی سپلائی ممکن بناتی ہیں۔ جس جگہ موٹریں نصب ہیں وہاں سے پانی کی سطح اور معیار کا جائزہ لیا جائے تو نتائج مثبت آتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسئلہ پانی کی پائپ لائنوں میں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شہر میں تقریباً نصف موٹریں خراب پڑی ہیں جنہیں ٹھیک نہیں کرایا جا سکا۔
شہر میں پانی فراہم کرنے والی والی 43 ٹربائنیں خراب پڑی ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مسائل درپیش ہیں
شعیب اللہ کے پاس صرف دو فیلڈ ورکر کنٹریکٹ پر کام کرتے تھے جنہیں چند ماہ پہلے نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے جس کے بعد ان کے لیے اپنا کام کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ایسی 36 لیبارٹریوں کا عملہ نوکریوں سے فارغ ہو چکا ہے۔ ان لیبارٹریوں کے لیے کوریا کی کپنی KOICA نے مالی وسائل فراہم کیے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوکری سے نکالے گئے عملے کو اب ڈیلی ویجز پر دوبارہ رکھا جا رہا ہے لیکن انہیں فیلڈ ورک کا اختیار نہیں دیا گیا۔
مقامی صحافی عبدالسلام مرزا شہریوں کو صاف پانی نہ ملنے کی ذمہ داری تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) پر ڈالتے ہیں۔ واٹر سپلائی سکیم کا مقصد شہریوں کو ایسا پانی فراہم کرنا ہے جسے بلا خوف وخطر پیا جا سکتا ہو لیکن یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا۔
گجرات شہر کو پانی کی فراہمی سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلٹر پلانٹس کی بروقت تبدیلی اور مرمت نہ ہونا، واٹرسپلائی کی لائنوں اور ٹیوب ویل سسٹم کا اپنی میعاد پوری کرنے کے بعد بھی تبدیل نہ ہونا، عملے کی پیشہ وارانہ غفلت، صاف پانی کی سپلائی لائن میں سیوریج کے پانی کا شامل ہونا اور مالی وسائل کی قلت جیسے مسائل صاف پانی کی عدم دستیابی کے بڑے اسباب ہیں۔
محکمہ پبلک ہیلتھ میں کمیونٹی ڈویلپمنٹ آفیسر افضال افضل بتاتے ہیں کہ شہر میں پانی کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والی 43 موٹریں (ٹربائنیں) خراب پڑی ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مسائل درپیش ہیں۔
''ایک ٹربائن 25 سال تک کارآمد رہتی ہے جس کے بعد اسے مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پائپوں کی لیکیج، سیوریج کی بار بار کھدائی، سٹرکوں اور گلیوں کی ازسرنو تعمیر اور دوسرے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے واٹر سپلائی لائنوں کو نقصان پہنچتا رہتا ہے۔''
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ صاف پانی کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے محکمے کا کام ٹربائن یا موٹریں لگانا ہے جبکہ ان کی دیکھ بھال اور دیگر متعلقہ ذمہ داریاں ڈسٹرکٹ واٹر ٹیسٹنگ لیب اور تحصیل میونسپل کارپوریشن کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
اسی آلودہ پانی میں عمر بہتی جا رہی ہے: نارووال کے شہری آلودہ پانی کے استعمال سے ہسپتالوں کا رخ کرنے لگے
جب انہیں یہ بتایا گیا کہ واٹر ٹیسٹنگ لیب کے تمام عملے کو نوکری سے برخاست کیا جا چکا ہے تو انہوں نے کوئی رائے دینے سے گریز کیا۔
افضال افضل کا یہ بھی کہنا تھا کہ آبادی بڑھنے اور نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہونے سے واٹر سپلائی سکیم پر کافی بوجھ آ گیا ہے۔ صورتحال میں بہتری لانے کے لیے مالی وسائل کی اشد ضرورت ہے۔
گجرات میں سرکاری و نجی اشتراک سے پانی کے فلٹریشن پلانٹ لگانے والے ادارے رشیدہ شفیع فلٹریشن پلانٹس کے سربراہ امتیاز کوثر بتاتے ہیں کہ شہر میں انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے صاف پانی کے اکثر فلٹریشن پلانٹ ناکارہ ہو چکے ہیں جن کے متبادل کے طور پر نئے پلانٹ نصب کیے جا رہے ہیں۔
''پلانٹ سے پانی کی فراہمی پر اٹھنے والے اخراجات حکومت دیتی ہے جبکہ پلانٹ ہم لگاتے ہیں۔ شہر میں اب تک تقریباً 80 پلانٹ نصب کیے جا چکے ہیں۔ نئے پلانٹس کی چیکنگ اور فلٹرز کی تبدیلی کا عمل باقاعدگی سے جاری رہتا ہے۔''
تاہم امتیاز کوثر سمجھتے ہیں کہ حکومت اس معاملے میں اپنی ذمہ داریاں کما حقہ انجام نہیں دے رہی اور یہ کام ان کے ادارے پر ہی چھوڑ رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شہر کی بہت بڑی آبادی تک یہ سہولت پہنچانے کے لیے حکومت کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔
شہر میں صاف پانی کی فراہمی سے متعلق سہولیات کے بارے میں گجرات کے اسسٹنٹ کمشنر حیدر عباس سے رابطے کی کوشش کی گئی تو ان کے دفتر سے جواب ملا کہ وہ فیلڈ میں مصروف ہیں۔
تاریخ اشاعت 28 مارچ 2023