کورونا کے ڈیلٹا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ: کیا پاکستان اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟

postImg

محمد فیصل

postImg

کورونا کے ڈیلٹا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ: کیا پاکستان اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟

محمد فیصل

کورونا وائرس کی نئی اور پہلے سے کئی گنا زیادہ خطرناک قِسم 'ڈیلٹا' ان دنوں پاکستان میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کورونا سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کے لیے بنایا گیا قومی ادارہ 'نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر' بھی اس کی تصدیق کر چکا ہے۔

پاکستان میں ڈیلٹا وائرس کا پہلا کیس 28 مئی 2021 کو سامنے آیا۔ صحت کی قومی وزارت کے مطابق یہ وائرس پہلی بار متحدہ عرب امارات سے ہوائی جہاز کے ذریعے پشاور آنے والے ایک مسافر کے تفصیلی طبی معائنے کے نتیجے میں ظاہر ہوا۔ موجودہ سرکاری اندازوں کے مطابق اس وقت ملک بھر میں کورونا کے 70 فیصد مریض ڈیلٹا وائرس کے متاثرین ہیں۔

پاکستان بھر میں کورونا کی وبا سے متاثر ہونے والے لوگوں کی مجموعی تعداد پہلے ہی 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ یہ بیماری اب تک 23 ہزار جانیں بھی لے چکی ہے۔ صرف گزشتہ ایک ہفتے میں ملک میں کووڈ۔19 کے روزانہ اوسطاً ساڑھے چار ہزار متاثرین سامنے آئے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ڈیلٹا وائرس کا پھیلاؤ کورونا کی پہلی اقسام سے کہیں زیادہ تیز اور مہلک ہو سکتا ہے۔

ڈیلٹا وائرس کتنا خطرناک ہے؟

کورونا وائرس کی اب تک کئی نئی قسمیں سامنے آ چکی ہیں جن میں سے الفا، بیٹا، گیما اور ڈیلٹا وائرس بالترتیب برطانیہ، جنوبی افریقہ، برازیل اور انڈیا میں دریافت ہوئے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ان میں سے ڈیلٹا وائرس خطرناک ترین ہے۔

یہ وائرس سب سے پہلے اکتوبر 2020 میں انڈیا میں ظاہر ہوا تھا لیکن اب دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔چند ہفتے پہلے یہ انڈیا میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا باعث بھی بن چکا ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کے مطابق کورونا کے ابتدائی دنوں میں چین میں سامنے آنے والے وائرس کے مقابلے میں ڈیلٹا وائرس کم و بیش 50 فیصد زیادہ متعدی ہے اور برطانیہ میں ظاہر ہونے والے الفا وائرس کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے جبکہ اس سے متاثرہ افراد میں وائرس کی مقدار کورونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں 1000 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ 

 جاپان میں یونیورسٹی آف ٹوکیو کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اور جنوبی کوریا میں بیماریوں کی روک تھام کے ادارے کی تحقیق کے مطابق یہ وائرس پھیپھڑوں کے خلیوں کو بآسانی جکڑ لیتا ہے جس کے بعد یہ ان میں گلٹیاں بنا دیتا ہے اور علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے خلاف شدید مزاحمت بھی کرتا ہے۔

ڈیلٹا وائرس کووڈ۔19 ویکسین کے خلاف بھی وائرس کی دوسری اقسام کی نسبت زیادہ مزاحمت کرتا ہے۔ یہ مزاحمت ایسے لوگوں کے جسم میں خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے جنہوں نے ویکسین کی صرف ایک خوراک لے رکھی ہو۔ اسی طرح ڈیلٹا وائرس پہلے سے بیمار اور کمزور قوتِ مدافعت والے افراد کو بھی بہت شدت سے نشانہ بناتا ہے۔

پاکستان میں ڈیلٹا وائرس کا پھیلاؤ

خیبرپختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کو بھیجے گئے کورونا وائرس کے نمونوں میں ڈیلٹا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ اسی طرح محکمہ صحت پنجاب کے مطابق گزشتہ دنوں لاہور کے مختلف ہسپتالوں سے اکٹھے کیے گئے 85 نمونوں میں سے 56 میں ڈیلٹا وائرس پایا گیا جبکہ صوبہ سندھ کے محکمہ صحت نے 356 نمونوں میں سے 66 میں ڈیلٹا وائرس دریافت کیا۔ان اعداد و شمار کی بنیاد پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان میں اس وقت کورونا کے 70 فیصد کیس ڈیلٹا وائرس کے ہیں۔

تاہم یہ اندازہ کسی سائنسی تحقیق پر مبنی نہیں ہے کیونکہ وائرس کی بدلتی ہوئی اشکال اور خصوصیات کا پتا چلانے کے لیے بڑے پیمانے پر جینوم سیکوئنسنگ درکار ہوتی ہے جس کا پاکستان میں کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ صرف اسلام آباد اور سندھ میں محدود پیمانے پر جینوم سیکوئنسنگ کی سہولت موجود ہے جبکہ پنجاب نے اس مقصد کے لیے درکار مشینری کی درآمد کا ابھی تک صرف آرڈر دے رکھا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں قائم نیشنل سنٹر فار بائیو انفارمیٹکس کے ایک اہل کار  اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس صورتِ حال کے بارے میں کہتے ہیں کہ "جینوم سیکوئنسنگ ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی میں کووڈ۔19 کی مختلف اقسام کا پتا چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے پاکستان میں ڈیلٹا وائرس سے متاثرہ افراد کی درست تعداد کسی کو معلوم نہیں"۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ "جینوم سیکوئنسنگ ایک پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے جسے کرنے کے لیے ہمارے سائنسی اداروں کے پاس مطلوبہ صلاحیت اور مہارت موجود نہیں ہے۔ اس کے لیے سائنس دان سیکوئنسنگ کے ذریعے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں جن کا موازنہ پوری دنیا کے اعداد و شمار سے کیا جاتا ہے۔ اس موازنے کے بعد ہی وائرس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آیا اس نے اپنی شکل اور خصوصیات تبدیل کی ہیں یا نہیں"۔ 

وائرس پر تحقیق کرنے والے غیر ملکی اداروں کے پاس بھی پاکستان میں ڈیلٹا وائرس کی موجودگی کے حوالے سے کوئی اعدادوشمار نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر سانس کی بیماریوں پر اعداد و شمار اکٹھے کرنے والا بین الاقوامی ادارہ، جی آئی ایس اے آئی ڈی، اور امریکہ کا نیشنل سنٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارمیشن (این سی بی آئی) کورونا وائرس کی نئی اقسام سے متعلق تازہ ترین اور مصدقہ معلومات جمع اور شائع کرنے کے حوالے سے پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے پاس پاکستان میں ڈیلٹا وائرس کی موجودگی کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ اگرچہ این سی بی آئی کے پاس پورے ایشیا سے ڈیلٹا وائرس کے 472 سیکوئنس موجود ہیں لیکن ان میں سے کسی کا تعلق بھی پاکستان سے نہیں۔

نیشنل سنٹر فار بائیو انفارمیٹکس نے جون 2020 میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران پاکستان میں کورونا وائرس کے 150 نمونوں کا جائزہ لیا تھا جس کے نتیجے میں وائرس کی متعدد اقسام کی نشان دہی ہوئی جو اومان، امریکہ، اردن اور قطر سمیت 28 ممالک سے پاکستان میں آئی تھیں۔ لیکن یہ جائزہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مکمل ہوا تھا۔ جینوم سیکوئنسنگ کے لیے بھی کم از کم اتنا ہی وقت درکار ہو گا۔

اسی طرح جینوم سیکوئنسنگ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہوتی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق اس کے ذریعے ایک نمونے کو ٹیسٹ کرنے پر تقریباً 40 ہزار سے 60 ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا پاکستان کے پاس بڑے پیمانے پر ایسے ٹیسٹ کرنے کی مالی صلاحیت موجود ہے؟

ڈیلٹا وائرس سے کون محفوظ ہے؟ 

جن لوگوں نے کووڈ۔19 ویکسین کی دونوں خوراکیں لے رکھی ہوں انہیں ڈیلٹا وائرس لاحق ہو جائے تو عام طور پر ان کی صحت اور زندگی کو سنگین خطرہ نہیں ہوتا۔ برطانوی حکومت کی ایک تحقیق کے مطابق کسی بھی کووڈ۔19 ویکسین کی دو خوراکیں وائرس کی اس قسم کے خلاف اوسطاً 81 فیصد تحفظ دیتی ہیں لیکن جن لوگوں نے ویکسین کی ایک خوراک لے رکھی ہو وہ اس وائرس سے اوسطاً 33 فیصد تک ہی محفوظ ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق جن شہروں اور قصبوں میں ویکسین کی دو خوراکیں لینے والوں کی تعداد مجموعی آبادی کے 30 فیصد سے کم ہے وہاں ڈیلٹا وائرس زیادہ تیزی سے قدم جما رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ غریب ممالک میں وائرس کی بدلتی شکلوں اور خصوصیات کی نگرانی کا انتظام بہت محدود ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو وائرس کی نئی اقسام سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ 

اسی طرح جن ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ویکسین نہیں لگوائی وہاں ڈیلٹا وائرس سے لاحق خطرہ ایسے ممالک کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتا ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ ویکسین لگوا چکا ہو۔ پاکستان میں اب تک صرف تین کروڑ 10 لاکھ افراد کووڈ ویکسین کی ایک خوراک لگوا چکے ہیں جبکہ دو خوراکیں لگوانے والوں کی تعداد محض 67 لاکھ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ڈیلٹا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ کئی دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 7 اگست 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 7 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد فیصل صحافی، محقق اور مترجم ہیں اور ملک کے نمایاں اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.