ایک ویڈیو اعلامیے کے ذریعے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں مساجد کے آئمہ اور مذہبی شخصیات نے اس بار تعلیمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ لڑکیوں کے کھیلنے پر پابندی لگائی جائے، کیونکہ لڑکیوں کا کھیلوں میں حصہ لینا معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کا سببب بن رہا ہے۔
اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئمہ و علماء کرام کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ بنوں سپورٹس کمپلکس میں تعلیمی اداروں کی لڑکیاں کھیلنے جاتی ہیں، جہاں مرد بھی آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنوں کے لوگ بہت غیرت مند ہیں وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ لڑکیاں مردوں کے بیچ میں کھیل رہی ہوں۔ لہٰذا تعلیمی ادارے لڑکیوں کو کھیلنے کے لیے نہ بھیجیں، اور اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ تعلیمی اداروں کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے۔
علماء نے ویڈیو میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ خواتین پردے اور علاقائی رسم و رواج کے اندر رہتے ہوئے تعلیم حاصل کریں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایف جی ڈگری کالج بنوں کی لیکچرار کرن زہرہ نے بتایا کہ بنوں میں خواتین اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں ہیں تو اپنے لئےآواز اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
"مردوں کی اکثریت ناخواندہ ہے، وہ خواتین اور لڑکیوں کے بارے محدود سوچ رکھتے ہیں، اسی لئے خواتین کو سماجی سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا ہے"۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے خواتین کے واحد فیملی پارک کو بھی ایسی ہی توجیہات دے کر بند کر دیا گیا تھا۔ یہاں فرسودہ روایات ہر شے پر حاوی ہیں۔
"مردوں کو ہر کام کی کھلی آزادی ہے، چاہے وہ مذہب کے مطابق ہوں یا نہیں، لیکن چونکہ انہیں مرد ہونے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے اس لئے چپ سادھ لی جاتی ہے۔ لیکن خواتین کے معاملے میں ان کا دہرا معیا ر تب نظر آتا ہے جب مختلف گروپ مذہب کا بہانہ بنا کر خواتین کے بنیادی حقوق سلب کر لیتے ہیں۔
مقامی صحافی سلمان خان نے خواتین کے کھیلنے پر پابندی کے مطالبے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصے سے بنوں میں خواتین پر کافی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں جس کی وجہ سے وہ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بنوں میں خواتین کے لیے تفریح کے کوئی مواقعے موجود نہیں جہاں وہ جا کر اچھا وقت گزاریں۔ ضلعی انتظامیہ کو چار و ناچار مذہبی گروپس کی بات ماننا پڑتی ہے کیونکہ مقامی لوگ علماء کی باتوں اور فیصلوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
پچھلے سال اگست کے مہینے میں علماء اتحاد اور مدارس کے طلباء کے احتجاج کے بعد خواتین کے لیے بنائے گئے واحد فیملی پارک کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔
پارک کو بند کرنے کے لیے ایک ہفتے تک احتجاج جاری رہا، اس وقت بھی یہی توجیح پیش کی گئی تھی کہ پارک میں خواتین کے آنے سے فحاشی پھیلتی ہے۔ پارک بند کرنے کے لیے احتجاج تب شروع ہوا جب پچھلے سال 14 اگست کے روز خواتین کی زیادہ تعداد فیملی پارک پہنچ گئی تھی اور جگہ نہ ملنے کے باعث کچھ خواتین کو پارک کے باہر انتظار کرنا پڑا تھا۔ اس دوران کچھ لڑکوں نے خواتین پر آوازے کسے، جس کے بعد علماء نے پارک کو بند کرنے کے لیے احتجاج شروع کر دیا اور انتظامیہ نے علماء کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔
اس حوالے سے انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو کمشنر بنوں ڈویژن کے ترجمان خالد محمد نے بتایا کہ بنوں میں خواتین کے گیمز انڈور ہوتے ہیں اور یہ بات غلط ہے کہ کھیل سے بے حیائی پھیلتی ہے۔ سپورٹس کمپلیکس میں بھی جب گیمز ہوتے ہیں تو وہاں بھی باقاعدہ پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
"بعض اوقات سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور دیگر وجوہات کی بنا پر بھی معاملے کو غلط رنگ دے دیا جاتا ہے"۔
دراصل یہ مسئلہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوا، کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شئیر کی گئی۔ اس تصویر کے کپیشن میں بنوں سپورٹس کمپلیکس کا نام لکھا گیا تھا جو کہ درحقیقت بنوں سپورٹس کمپلیکس کی نہیں تھی۔ لیکن اس تصویر کے بعد علما نے ایک میٹنگ بلائی اور خواتین کی کھیلوں پر پابندی کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا۔ تاہم اسسٹنٹ کمشنر بنوں نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا ہے تاکہ تصویر شیئر کرنے والے کا پتہ لگا کر اس کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور اس غلطی کا ازالہ کیا جا سکے۔
وفاق المدارس العربیہ کے ضلعی مسئول مولانا ضیاء الحق عثمانی، کمشنر کے ترجمان کے موقف کو درست نہیں مانتے۔
وہ کہتے ہیں کہ فیک تصویر والی بات غلط ہے۔
"علماء نے عوامی شکایات کے بعد لڑکیوں کے کھیلنے پر پابندی کا مطالبہ کیا کیونکہ سپورٹس کمپلیکس میں مردوں کا آنا جانا تھا۔ وہاں ہونے والے مقابلوں کی وجہ سے بنوں کی روایات اور ثقافت کو خطرات لاحق تھے اور بنوں کا ماحول خراب ہو رہا تھا۔"
انہوں نے کہا وہ خواتین کے کھیل کے خلاف نہیں ہیں۔ خواتین کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں لیکن محدود جگہ پر باپردہ ہو کر۔
"بنوں کے علماء علاقائی روایات اور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کے حقوق کے حق میں بات کرتے ہیں"۔
یہ بھی پڑھیں
بارش کا پہلا قطرہ: وراثتی جائداد میں اپنے حصہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی قبائلی خواتین
ایڈووکیٹ طارق افغان ضلعی انتظامیہ کے فیصلے سے بہت ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بنوں میں کچھ عرصے سے جو واقعات پیش آ رہے ہیں خاص کر خواتین کے حوالے سے، وہ نہایت قابل افسوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنوں میں لڑکیوں کے کھیل کود پر پابندی لگانا یا فیملی پارک کو بند کرانا یہ ان علماء کا کام ہے جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
"ایسی پابندیوں کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم اگر ریاست بھی کسی چیز پر پابندی لگاتی ہے تو اس کے لیے بھی معقول وجوہات سامنے لائی جاتی ہیں۔ علماء کے پاس تو یہ اختیار بالکل نہیں کہ وہ کسی چیز پر پابندی لگائے"۔
انہوں نے کہا کہ علماء کا کام لوگوں کو صحیح راستہ دکھانا ہے نہ کہ جج بن کہ اپنی بات منوانا۔
"میرے خیال میں یہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا ہے اور عورتوں کے حقوق کو سلب کرنا ہے کیونکہ لڑکیاں جہاں پر کھیلتی ہے تو وہ لڑکیوں کے درمیان ہی ہوتا ہے وہاں پہ مرد نہیں ہوتے"۔
طارق افغان نے کہا کہ بدقسمتی سے ضلعی انتظامیہ علماء کی دھمکیوں میں آ جاتی ہے۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ اپنی ڈیوٹی کرے اور ایسے لوگ جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں ان کے خلاف ایکشن لیں۔
"اگر کوئی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے تو اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506 کے تحت مقدمہ کیا جاسکتا ہے جس کی سزا دو سال قید ہے اور ملزم پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 18 دسمبر 2023