سیلاب کے بعد بلوچستان میں غذائی قلت بڑھ گئی، لاکھوں بچوں کی بڑھوتری خطرے سے دوچار

postImg

سہیل ابابکی

postImg

سیلاب کے بعد بلوچستان میں غذائی قلت بڑھ گئی، لاکھوں بچوں کی بڑھوتری خطرے سے دوچار

سہیل ابابکی

نصیر آباد کی لال بی بی اپنے نواسے کو لے کر کوئٹہ کے سنڈیمن سول ہسپتال آئی ہیں۔ ان کے یہاں آنے کا مقصد بچے کا علاج کرانا ہے جو دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے وہ نواسے کو اپنے علاقے کے متعدد ہسپتالوں میں لے گئی تھیں لیکن اسے افاقہ نہ ہوا۔

لال بی بی کا تعلق بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے گاؤں گوٹھ محمد بخش سے ہے۔ یہ گاؤں تحصیل مانجھوٹی میں واقع ہے جسے گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے بری طرح متاثر کیا تھا۔ سیلاب کے بعد یہاں کے بیشتر بچے بیماریوں کا شکار ہیں۔ لال بی بی کہتی ہیں کہ ان کا نواسا پیدائش کے وقت صحت مند تھا لیکن پھر کمزور ہونے لگا اور اب اس کی حالت بہت خراب ہے۔

"پہلے ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کو یرقان ہے۔ جب میں دوسرے ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے بچے کو چار دن ہسپتال میں رکھا اور پھر بتایا کہ بچہ ٹھیک ہو گیا ہے۔ جب ہم گھر واپس گئے تو بچے کی حالت دوبارہ بگڑ گئی۔ اس لئے اب ہم اسے کوئٹہ لے آئے ہیں۔''

لال بی بی بتاتی ہیں کہ سیلاب میں ناصرف ان کا گھر تباہ ہوا بلکہ ان کے بیٹے کا روزگار بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب ان کے لئے گھر کا کرایہ اور بجلی و گیس کے بل ادا کرنا ہی بہت مشکل ہے اور ایسے میں بچے کی بیماری نے ان کی کی تکالیف میں اضافہ کر دیا ہے۔

سنڈیمن سول ہسپتال میں لال بی بی کے نواسے کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نثار کہتے ہیں کہ یہ بچہ پروٹین کی کمی کا شکار ہے اور اس کیفیت کو طبی زبان میں 'پی ایم سی' بھی کہا جاتا ہے۔ بلوچستان میں یہ بیماری عام ہے اور دیہی علاقوں میں 80 فیصد بچے اس کا شکار ہیں۔ اس بیماری میں بچوں کی بڑھوتری سست پڑ جاتی ہے اور ذہنی قوت میں کمی آ جاتی ہے۔

ڈاکٹر نثار غربت، غذائیت کی کمی، دوران حمل خواتین کو مناسب خوراک کی عدم دستیابی، ناخواندگی اور بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے کو اس مرض کی بنیادی وجوہات میں شمار کرتے ہیں۔

سماجی تنظیم 'بلوچستان سول سوسائٹی' کے سربراہ صدر سمیع زرکون کہتے ہیں کہ سیلاب کے بعد صوبے میں غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ غذائی قلت کے مسئلے پر حکومت بلوچستان نے پانچ سال پہلے صوبے میں قومی ایمرجنسی لگائی تھی۔ سیلاب نے اس مسئلے کو مزید سنگین کردیا ہے۔

"بلوچستان میں سیلاب سے پہلے ہی 47.9 فیصد لوگ غذائی قلت کے شکار تھے۔ سیلاب آیا تو یہاں خوراک کے ذخائر ضائع ہو گئے اور پانی جمع ہونے سے زمین بھی زراعت کے قابل نہ رہی رہی۔ نتیجتاً صوبے کو شدید نوعیت کے غذائی بحران کا سامنا ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ نصیرآباد صوبے کا زرعی ضلع سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں اب بھی بہت سے علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے جس کی وجہ سے فصلیں اگانا ممکن نہیں رہا۔ اناج کی قلت سے بچوں کی صحت بھی براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔

نصیر آباد کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر عبدالمنان کہتے ہیں کہ ضلعےکا بڑا مسئلہ بچوں ؐیں غذائی قلت ہے۔ انہوں نے بتایا وہ یونیسف اور نیوٹریشن پروگرام کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر کام کر رہے تاکہ غذائی قلت کے شکار بچوں کو اضافی خوراک فراہم کی جا سکے۔

<p>2018 کے قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق نصیرآباد میں 23 فیصد بچوں کا وزن غذائی قلت کی وجہ سے کم تھا<br></p>

2018 کے قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق نصیرآباد میں 23 فیصد بچوں کا وزن غذائی قلت کی وجہ سے کم تھا

صوبائی نیوٹریشن پروگرام نصیرآباد کی ضلعی آفیسر نورمیمن بتاتی ہیں کہ سیلاب کے بعد یہاں بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور بیمار حاملہ خواتین کمزور بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔

"پروگرام کے تحت صوبے کے متاثرہ علاقوں میں دو لاکھ 17 ہزار حاملہ خواتین اور دیگر کو کم خوراکی کے نقصانات سے بچانے کے لئے آئرن فولک ایسڈ کی گولیاں فراہم کی جا رہی ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہم غذائی قلت کے شکار بچوں کو علاج تو مہیا کرتے ہیں لیکن علاقے میں مخلتف بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں جن سے متاثر ہو کر بچے دوبارہ غذائی قلت کا شکار ہوجاتے ہیں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'

بلوچستان نیوٹریشن پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شبیر احمد مینگل کا کہنا ہے کہ صوبے میں غذائی قلت انتہائی خطرناک حدود کو چھو رہی ہے۔ سیلاب کے بعد ضلعے میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔2018 کے قومی نیوٹریشن سروے کے مطابق نصیرآباد میں 23 فیصد بچوں کا وزن غذائی قلت کی وجہ سے کم تھا، 45 فیصد بچے کمزور تھے اور 18 فیصد بچوں کا وزن گر رہا تھا۔''

ڈاکٹر شبیر کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ صوبے کے تمام بائیس اضلاع میں کام کر رہا ہے لیکن حکومت کے پاس فنڈ نہ ہونے کے باعث وہ عطیات پر انحصار کر رہے ہیں اور عالمی اداروں کی مدد سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے کوشاں ہیں۔

تاریخ اشاعت 5 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سہیل ابابکی تعلق کوئٹہ سے ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اور ملٹی میڈیا رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خواجہ سراؤں کا جہنم: خیبر پختونخوا جہاں مقتولین کو دفنانے تک کی اجازت نہیں ملتی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.