سندھ کے 2100 سال پرانے ساحلی شہر بھنبھور کے کھنڈرات میں ہاتھی دانت سے زیور اور آرائشی اشیا بنانے کے کارخانوں کے آثار ملے ہیں۔ کم و بیش 800 سال پرانے یہ آثار اس زمانے کے ہیں جب سندھ پر سومرو خاندان کی حکومت تھی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کارخانے اس وقت کی دنیا میں ہاتھی دانت کی سب سے بڑی صنعت کا حصہ تھے۔
یہ نتائج بھنبھور سے ملنے والے ہاتھی دانت کے ان ٹکڑوں کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہیں جن کا کُل وزن قریباً 40 کلو گرام ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ٹکڑے ہاتھی دانت سے آرائشی چیزیں بنانے اور ان پر نقش و نگار کھودنے کے دوران بچ گئے تھے اور ایک حالیہ کھدائی کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں جو سندھ کے صوبائی محکمہ سیاحت، ثقافت اور نوادرات اور اٹلی کی وزارت خارجہ کا ایک مشترکہ منصوبہ ہے۔ کھدائی کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں کسی اور جگہ سے اتنی بڑی تعداد میں ہاتھی دانت کے ایسے ٹکڑے نہیں ملے ہیں۔
اس سے پہلے 1950 اور 1960 کی دہائی میں بھنبھور میں ہونے والی کھدائی میں بھی ہاتھی دانت سے بنے چند سجاوٹی برتن دریافت ہو چکے ہیں۔ یہ دونوں دریافتیں اس جگہ ہوئی ہیں جہاں 722 عیسوی میں جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد تعمیر کی گئی تھی جس کے آثار بھنبھور کے کھنڈرات میں اب بھی موجود ہیں۔
پاکستان میں پائے جانے والے مہرگڑھ، ہڑپہ اور موہنجو داڑو جیسے ہزاروں سال پرانے تہذیبی آثار کے مقابلے میں بھنبھور نسبتاً ایک نئی بستی ہے جو پہلی صدی عیسوی میں بسائی گئی۔ یہ اس جگہ واقع ہے جہاں دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے۔ کراچی سے اس کا فاصلہ قریباً 65 کلومیٹر مشرق کی جانب بنتا ہے۔
تیرھویں صدی میں یہ بستی ختم ہو گئی تاہم اس کا نام اب بھی تاریخ کی کتابوں اور مقامی لوگوں کے حافظے میں زندہ ہے۔ مشہور لوک داستان 'سسی پنوں' کی ہیروئن سسی کا تعلق بھی اسی بستی سے بتایا جاتا ہے۔
بھنبھور کے دور عروج میں اسے ایک اہم ساحلی تجارتی مرکز کی حیثیت بھی حاصل تھی جہاں بحرہند کے ارد گرد واقع علاقوں اور مشرق بعید کے ممالک سے تجارتی بحری جہازوں کی آمدورفت ہوتی تھی۔ یہاں قریباً 14 ہزار مربع میٹر پر ایک قلعہ قائم تھا جس کی چار دیواری سے باہر بھی عمارتیں اور سڑکیں بنائی گئی تھیں۔
قدرتی آفات نے بھنبھور کو کئی مرتبہ تہ و بالا کیا۔ 280 عیسوی میں یہ بستی زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گئی لہٰذا بعد میں اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ لیکن بارہویں صدی کے آخر میں جب دریائے سندھ کا ڈیلٹا خشک ہونا شروع ہوا تو دوسرے علاقوں کے ساتھ بھنبھور کی تجارت ماند پڑنے لگی۔ خشک سالی کے اس طویل دور میں دریا نے اپنا رخ موڑ لیا جس کی وجہ سے یہ شہر ایک بندرگاہ نہ رہا بلکہ خشکی پر پڑا ایک ویرانہ بن گیا جس کے باسی پانیوں کی تلاش میں نقل مکانی کر گئے۔
ہاتھی دانت کہاں سے آئے
بھنبھور معاشی اعتبار سے ایک خوشحال شہر تھا اور ماہرین کا خیال ہے کہ ہاتھی دانت کی صنعت اس کی خوشحالی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔
ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس جگہ ہاتھی دانت سے زیادہ تر زیورات تیار کیے جاتے تھے کیونکہ یہاں سے دریافت کیے گئے ہاتھی دانت کے بعض ٹکڑے ایسے ہیں جنہیں جوڑنے سے مربع شکل کے چھلے بنتے ہیں جو کانوں میں پہننے والی بالیوں یا کانٹوں جیسی کوئی چیز ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کو بھنبھور میں ہاتھی دانت سے بنا شطرنج کا ایک پیادہ بھی ملا ہے جو نا مکمل حالت میں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اسے گھڑتے وقت اس میں کوئی نقص پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث اسے ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا۔
آج بھنبھور کے علاقے میں ہاتھی دانت نہیں پائے جاتے اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس شہر میں ہاتھی دانت کی اتنی بڑی صنعت قائم تھی تو اس کے لیے خام مال کہاں سے آتا تھا؟
سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات میں دریافت اور کھدائی کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ناہید زہرا کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ یہ خام مال بھی مقامی طور پر ہی دستیاب تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ قدیم دور میں ہاتھی سندھ اور موجودہ پاکستان کے باقی علاقوں کے لیے اجنبی جانور نہیں تھا کیونکہ ''سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کے وقت راجہ داہر کی فوج میں ہاتھی موجود تھے، اسی طرح دیگر تاریخی واقعات میں بھی اس علاقے میں ہاتھیوں کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھنبھور میں ہاتھی دانت دور دراز علاقوں سے ہی لائے جاتے تھے''۔
بھنبھور میں کھدائی اور ہاتھی دانت کے ٹکڑوں کی دریافت کا کام ڈاکٹر ناہید زہرا ہی کی نگرانی میں ہوا ہے۔ ان کہنا ہے کہ یہاں سے ملنے والے ہاتھی دانت کے ٹکڑوں سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ یہ کتنے قدیم ہیں تاہم ابھی ہم اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اس شہر میں یہ صنعت کب سے قائم تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ کورونا کی وبا کے باعث مزید کھدائی اور تحقیق کا عمل عارضی طور پر رک گیا ہے اور اس دریافت پر کام کرنے والی اٹلی کی ٹیم نے تا حال اپنی رپورٹ کو عملی شکل دینا ہے۔
بھنبھور میں ایسی قیمتی اشیا بھی دریافت ہوئی ہیں جو دنیا کے دوسرے خطوں میں تیار کی جاتی تھیں۔ عین ممکن ہے کہ انہیں ہاتھی دانت کی فروخت سے حاصل کیا گیا ہو۔
ناہید زہرا کا کہنا ہے کہ ''تاحال یہ طے نہیں ہو سکا کہ ہاتھی دانت سے بنائی جانے والی آرائشی چیزیں کون سے خِطوں کو برآمد کی جاتی ہوں گی۔ البتہ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں ان چیزوں کی مارکیٹ موجود تھی''۔ یہ بات اس تاریخی حقیقت سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ قدیم دور اور ازمنہ وسطیٰ میں ہاتھی دانت کی قدر و قیمت سونے اور چاندی کے برابر ہوتی تھی اور اسے وادی سندھ سے لے کر بحیرہ روم کے خطے اور رومن سلطنت تک ہر جگہ آسائشی اور آرائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
ہاتھی دانت کے ٹکڑوں کے علاوہ بھنبھور سے ایسے برتنوں کا بہت بڑا ذخیرہ بھی دریافت ہوا ہے جو آٹھویں صدی سے تیرہویں صدی کے درمیان استعمال ہوتے رہے۔ ان میں کچھ تو سادہ سے ہیں جبکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو انتہائی مہارت سے بھٹی میں مخصوص درجہ حرارت پر پکا کر تیار کیے گئے ہیں۔ ان کی ساخت سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھنبھور میں پائی جانے والی مختلف صنعتیں تکنیکی اعتبار سے خاصی ترقی یافتہ تھیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 29 جون 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 18 جون 2024