آٹھ سال پہلے جب پنجاب حکومت نے اعلان کیا کہ بہاولنگر شہر میں ایک میڈیکل کالج بنایا جائے گا تو خنسا مریم پری میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ اب وہ ڈاکٹر بن کر لوگوں کا علاج معالجہ کر رہی ہیں لیکن اس شہر میں میڈیکل کالج ابھی بھی تعمیر نہیں ہوا۔
ان کا تعلق بہاولنگر کے نواحی گاؤں سورج گنج سے ہے جہاں ان کے والد ارشد خان اپنی 10 ایکڑ زمین پر کھیتی باڑی کر تے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان کی بیٹی کو میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے لاہور میں رہنا پڑا تو ان کی رہائش اور پڑھائی کے اخراجات اٹھانے کے لیے انہوں نے اپنی زمین ایک سال کے لیے ایک ٹھیکے دار کو دے دی اور خود بہت محدود مالی وسائل میں گزارا کرتے رہے۔
اسی طرح جب خنسا مریم راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخل ہو گئیں تو ارشد خان کو اپنی ایک ایکڑ زمین فروخت کرنا پڑی تاکہ وہ ان کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات پورے کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے بہاولنگر میں ہی میڈیکل کالج بنا دیا ہوتا تو انہیں یہ ساری مالی مشکلات برداشت نہ کرنا پڑتیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے لیے اپنی بیٹی کو اپنے گاؤں سے سینکڑوں میل دور راولپنڈی بھیجنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کی خاطر انہیں اپنی برادری اور اہلِ علاقہ کی اس سوچ کا مقابلہ بھی کرنا پڑا جو اس بات کو اچھا نہیں سمجھتی کہ لڑکیاں پڑھائی کی خاطر اپنے گھروں سے دور رہیں۔
بہاولنگر سے تعلق رکھنے والی ایک اور نوجوان ڈاکٹر خاتون بھی کہتی ہیں کہ انہوں نے خود تو کسی نہ کسی طرح دو سو کلومیٹر دور فیصل آباد جا کر وہاں کے میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کر لی لیکن ہر سال درجنوں مقامی طالبات تعلیمی اہلیت ہونے کے باوجود ایسا نہیں کر پاتیں کیونکہ یا تو ان کے پاس اس مقصد کے لیے درکار مالی وسائل نہیں ہوتے یا ان کے والدین لڑکیوں کے تعلیم کے بارے میں پائے جانے والے عمومی سماجی رویوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔
سرکار بمقابلہ ٹھیکے دار
بہاولنگر میں میڈیکل کالج بنانے کا اعلان 2014 میں اُس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کیا تھا۔ ابتدائی طور پر اس میں ایک سو طلبا اور طالبات کو تعلیم دی جانا تھی جبکہ اس کی تعمیر پر اخراجات کا کل تخمینہ ایک ارب 70 کروڑ روپے لگایا گیا تھا۔
اُسی سال اس کی تعمیر کے لیے متعدد ٹھیکے بھی جاری کر دیے گئے جن کے نتیجے میں 2016 میں اس کی انتظامی عمارات، عملے کی رہائش گاہوں اور بیشتر ہاسٹلوں کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ لیکن باوجوہ کالج کی مرکزی عمارت کی تعمیر کا آغاز ابھی تک نہیں ہو سکا۔
مقامی لوگ اس تاخیر کے بارے میں اس قدر فکرمند ہیں کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں سے اکثر اس کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے ضلع بہاولنگر میں واقع پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-240 سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے منتخب شدہ امیدوار محمد جمیل نے 11 جولائی 2019 کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک تحریری سوال کے ذریعے حکومت سے اس کی وجہ دریافت کی۔ ایک اور مقامی حلقے، پی پی-243، سے منتخب ہونے والے اسی جماعت کے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری مظہر اقبال نے بھی 6 جون 2021 کو ایک اسمبلی اجلاس کے دوران اس کے بارے میں سوال اٹھایا۔
دوسری طرف کالج کے قیام کے لیے حکومت پنجاب کی طرف سے مقرر کردہ فوکل پرسن منصور احمد کہتے ہیں کہ اس تاخیر کی وجہ حکومتی سستی یا عدم توجہی نہیں۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ یہ عمارت بنانے کے لیے پہلی بار 16 اکتوبر 2014 کو 50 کروڑ روپے مالیت کے ٹھیکے کا اشتہار جاری کیا گیا لیکن، ان کے مطابق، پہلے درجے کی کسی تعمیراتی کمپنی نے اس میں دلچسپی ظاہر نہ کی۔ تاہم اس سے منسلک رہائشی عمارات، ڈاکٹروں کے ہاسٹل، کیفے ٹیریا اور چار دیواری کی تعمیر کے لیے جاری کردہ ٹھیکے دوسرے درجے کی متعدد چھوٹی کمپنیوں نے حاصل کر لیے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ "یہ تمام عمارتیں بروقت مکمل ہو گئیں"۔
ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ 2014 سے لے کر اب تک حکومت نے ایک دفعہ نہیں بلکہ "سات مرتبہ" اس عمارت کے لیے ٹھیکے جاری کیے ہیں لیکن "ابھی تک پہلے درجے کی کسی تعمیراتی کمپنی نے ان ٹھیکوں کے لیے بولی دینے کے عمل میں حصہ نہیں لیا"۔
یہ بھی پڑھیں
اعلیٰ تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات: 'غریب طبقے کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا معاشرتی مساوات کے لیے انتہائی ضروری ہے'۔
ان کے مطابق اس عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں بالخصوص اور افراطِ زر میں بالعموم تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کالج کی باقی ماندہ تعمیرات کے تخمینہِ لاگت میں لگ بھگ 60 کروڑ روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود اِن ٹھیکوں میں ابھی تک پرانی لاگت ہی دکھائی جا رہی ہے جو کمپنیوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
پنجاب کے صوبائی سیکرٹری برائے سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل کالج ایجوکیشن نے بھی پنجاب اسمبلی میں اٹھائے گئے سوالوں کے جواب میں یہی موقف اپنایا تھا۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب صوبائی حکومت اس پورے منصوبے پر نظرِثانی کر چکی ہے جس کے نتیجے میں اس کی لاگت کا نیا تخمینہ لگا کر سات جولائی 2021 کو صوبائی محکمہ منصوبہ بندی اور ترقی کو منظوری کے لیے بھیجا جا چکا ہے۔
انہوں نے اپنے جواب میں یہ توقع بھی ظاہر کی کہ یہ محکمہ جلد ہی نئی لاگت کی منظوری دے دے گا جس کے فوراً بعد کالج کی عمارت کا تعمیراتی کام شروع ہو جائے گا۔
تاریخ اشاعت 11 اگست 2022