غلام رسول خوش ہیں کہ وہ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
لاہور کی ایک افغان بستی کے مشترکہ مہمان خانے میں بیٹھے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس سال 15 اگست کو جب طالبان نے افغانستان میں حکومتی نظام سنبھالنا شروع کیا تو انہیں خدشہ لاحق ہو گیا کہ ان کے شہر مزار شریف میں کہیں خانہ جنگی نہ چھڑ جائے کیونکہ 1996 میں جب طالبان پہلی بار برسرِ اقتدار آئے تھے تو ایک مقامی فوجی کمانڈر رشید دوستم نے ان کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی۔
غلام رسول کو یہ بھی خوف تھا کہ خانہ جنگی کی صورت میں کہیں انہیں طالبان کا حمایتی نہ سمجھ لیا جائے کیونکہ بیشتر طالبان انہی کی طرح پختون ہیں جبکہ مزار شریف کی آبادی زیادہ تر ازبک اور تاجک نسلوں سے تعلق رکھتی ہے۔
اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنی بیوی، چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن مزار شریف چھوڑنے سے پہلے ہی انہیں پتہ چل گیا کہ ان کے لیے قریب ترین سرحدی گزرگاہ طورخم کے ذریعے پاکستان جانا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ وہاں متعین پاکستانی حکام صرف ایسے افغانوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت دے رہے تھے جن کے پاس یا تو پاکستانی ویزے تھے یا وہ سفارتی شعبے اور بین الاقوامی تنظیموں سے منسلک تھے۔
لہٰذا اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ وہ بس کے ذریعے ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر کے افغانستان کے جنوب مشرقی قصبے سپن بولدک پہنچے جس کے دوسری طرف چمن نامی پاکستانی شہر واقع ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس سرحدی مقام پر متعین پاکستانی حکام پاکستان داخل ہونے کے خواہش مند افغانوں سے چار ہزار روپے فی کس رشوت لے کر انہیں سرحد پار کرنے دے رہے تھے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ "میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے اس لیے میں نے منت سماجت کر کے اس رقم کو کم کرا لیا اور پانچ ہزار روپے کے عوض اپنے پورے خاندان کو سرحد کے اِس طرف لے آیا"۔
ستمبر کے دوسرے ہفتے میں غلام رسول چمن سے لاہور کی اس بے نام افغان بستی میں آ گئے جو شہر کے شمال مغرب میں واقع سگیاں پل کے آس پاس پھیلی ہوئی ہے کیونکہ ان کے کچھ عزیز کئی سالوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ان رشتہ داروں کا ذکر کرتے ہوئے وہ مزاحیہ انداز میں کہتے ہیں کہ "اب تو یہی لوگ میرے خاندان کے کھانے پینے کا انتظام کریں گے"۔
حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے لاہور میں اپنے قیام کے دو ہفتوں کے اندر ہی ایک گدھا گاڑی خرید لی ہے اور کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے کباڑیوں کو بیچنے لگے ہیں۔
اس بستی کے اکثر باشندوں کا یہی پیشہ ہے۔ اِس کے وسط میں ہر طرف ایسا کوڑا کرکٹ بکھرا پڑا ہے جو مقامی لوگوں نے اکٹھا کیا ہے لیکن ابھی اسے بیچ نہیں پائے۔ پاوں سے ننگے اور پرانے کپڑوں میں ملبوس درجنوں بچے اس کوڑے کے ارد گرد کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
غلام رسول اور حال ہی میں افغانستان سے آنے والے چند دیگر خاندان بستی کے پس ماندہ ترین حصے میں رہتے ہیں جس میں تقریباً 1800 مربع گز کے ایک قطعہِ زمین پر لکڑی، پلاسٹک اور کپڑے سے بنی دو سو جھونپڑیاں کھڑی ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر آٹھ سو لوگ رہتے ہیں۔ یہاں یہ تصور کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے کہ خراب موسم کے دوران ایک ہی خاندان کے بڑے بوڑھے، مرد، عورتیں اور بچے ان 10 مربع گز کی جھونپڑیوں میں کیسے سماتے ہوں گے۔
اس زمین کا مالک ہر ماہ ان سے کل ملا کر 50 ہزار روپے کرایہ وصول کرتا ہے لیکن بدلے میں سوائے بجلی کے کوئی سہولت فراہم نہیں کرتا۔
شناختی کاغذات: ہر دروازے کی چابی
عبدالقہار جب پہلی بار اس بستی میں آئے تو ان کی عمر تقریباً 12 سال تھی۔ اب ان کے چھ بچے ہیں۔
ان کا خاندان 1990 کی دہائی میں افعانستان کے صوبے بغلان سے پاکستان آیا تھا۔ کچھ عرصہ شمالی وزیرستان کے ایک مہاجر کیمپ میں رہنے کے بعد یہ لوگ خیبر پختونخوا کے شہر لکی مروت میں منتقل ہو گئے۔ تاہم پچھلے بیس سال سے وہ لاہور میں رہ رہے ہیں۔
عبدالقہار کا کہنا ہے کہ اس بستی میں مہاجرین کی آمد لگ بھگ تیس سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ اِس وقت یہاں آٹھ ہزار کے قریب افغان باشندے مقیم ہیں جن میں سے بیشتر اُن کے خاندان کی طرح عارضی گھروں میں رہتے ہیں جن کی پختہ چار دیواریاں تو موجود ہیں لیکن ان کے اندر بنے کمرے پرانی لکڑی، استعمال شدہ پلاسٹک اور کپڑے کی چادروں سے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا کرایہ 10 ہزار سے 15 ہزار روپے کے درمیان ہے۔
اس بستی میں سکول، ہسپتال، پختہ گلیوں اور سیوریج جیسی کوئی شہری سہولیات موجود نہیں۔ حتیٰ کہ یہاں کے رہنے والے لوگ روز مرہ کے استعمال کے لیے پانی بھی ایک قریبی مسجد سے بھر کر لاتے ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کچے پکے گھروں سے نکلنے والا استعمال شدہ پانی انہی کے آس پاس جمع ہوتا رہتا ہے۔ بستی میں ہر طرف مچھروں اور مکھیوں کی بہتات ہے اور انسانی فضلے اور کوڑے کی سڑاند ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔
عبدالقہار کہتے ہیں کہ تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مقامی بچے کم عمری میں ہی کوڑا اکٹھا کر کے کے بیچنے لگتے ہیں اور یوں ان کا بچپن تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق ان بچوں کو قریبی علاقوں میں واقع سکولوں میں بھی داخل نہیں کرایا جا سکتا کیونکہ اس کے لیے ایسی شناختی دستاویزات چاہئیں جنہیں پاکستانی حکام تسلیم کرتے ہوں۔
یہ دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے بستی کے باشندوں کو علاج معالجے میں بھی بہت دشواری اٹھانا پڑتی ہے کیونکہ، عبدالقہار کے بقول، ان کے پاس نجی ہسپتالوں میں علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے جبکہ سرکاری ہسپتال مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ان کی شناخت کا ثبوت مانگتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی دفعہ انہیں اپنا یا اپنے اہلِ خانہ کا علاج کرانے کے لیے اپنے کسی پاکستانی دوست کا شناختی کارڈ استعمال کرنا پڑتا ہے حالانکہ ایسا کرتے ہوئے انہیں شدید سبکی کا احساس ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
افغانستان میں طالبان کے آنے سے طورخم بارڈر کے آر پار لوگوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت شدید مشکلات کا شکار۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے پاکستان میں مقیم ترجمان قیصر آفریدی کا کہنا ہے کہ اس افغان بستی میں شہری سہولتوں کی عدم فراہمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مہاجر کیمپ کے طور پر رجسٹرڈ ہی نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کے 54 رجسٹرڈ کیمپ ہیں جن میں سے 43 صوبہ خیبر پختونخوا میں، 10 صوبہ بلوچستان میں اور ایک صوبہ پنجاب کے علاقے میانوالی میں واقع ہے۔ ان کے مطابق ان تمام کیمپوں میں صحت، تعلیم اور پینے کے پانی جیسی ضروری سہولیات کی فراہمی یو این ایچ سی آر کی ذمہ داری ہے۔
تاہم حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس بستی میں رہنے والے افغان مہاجرین مختلف سرکاری سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے پاس پی او آر (پروف آف رجسٹڑیشن) کارڈ موجود ہو جو ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وفاقی وزارت پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو جاری کرتی ہے (اگرچہ اس کے اجرا پر آنے والے اخراجات یو این ایچ سی آر برداشت کرتا ہے)۔ اس کارڈ کے حامل افراد اپنے بچوں کو سکول داخل کرا سکتے ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کرا سکتے ہیں، موبائل فون کی سِم خرید سکتے ہیں اور بینک اکاؤنٹ بھی کھول سکتے ہیں۔
لیکن بستی میں رہنے والے زیادہ تر افغانوں کے پاس یہ کارڈ موجود ہی نہیں۔
قیصر آفریدی کا کہنا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران پاکستانی حکومت نے صرف پانچ لاکھ افغان مہاجرین کو پی او آر کارڈ جاری کیے ہیں حالانکہ سرکاری اور غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان بھر میں ان مہاجرین کی تعداد کم از کم 30 لاکھ ہے۔ ان کے مطابق، کارڈ کے اجرا میں اس قدر تاخیر کی بنیادی وجہ وہ پیچیدہ اور طویل سرکاری طریقہ ہائے کار ہیں جن کے تحت اسے حاصل کرنے کے خواہش مند ہر افغان خاندان کو ایک صبر آزما تصدیقی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
عبدالقہار کہتے ہیں کہ بہت سے افغان مہاجرین ایسے بھی ہیں جن کے پاس یہ کارڈ موجود تو ہے لیکن وہ اسے استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ ان کا اپنا کارڈ 31 مئی 2015 سے زائد المیعاد ہو چکا ہے۔
افغانستان کے صوبے قندوز سے تعلق رکھنے والے 48 سالہ محمد غوث کا پی او آر کارڈ بھی پچھلے چھ سال سے ناقابلِ استعمال ہے۔ وہ 35 سال سے لاہور میں مقیم ہیں اور اج کل سگیاں پل کے پاس اپنے پانچ بچوں کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پی او آر کارڈ قابلِ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہ تو کوئی کاروبار شروع کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی جائیداد خرید سکتے ہیں۔ ان کے بقول "ہم ہر وقت اسی غیر یقینی کیفیت میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمیں افغانستان واپس نہ بھیج دیا جائے"۔
انہیں امید تھی کہ عمران خان کے حکومت میں آنے سے یہ صورتِ حال تبدیل ہو جائے گی کیونکہ ستمبر 2018 میں کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ "جو افغان مہاجرین پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کی پرورش یہاں ہوئی ہے انہیں پاکستانی شہریت دی جائے گی"۔
لیکن لاکھوں افغان مہاجرین کی طرح محمد غوث کو شکایت ہے کہ تین سال گزرنے کے بعد بھی اس اعلان پر کوئی عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔
تاریخ اشاعت 29 ستمبر 2021