پاک بھارت کشیدگی کے دوران 1971ء کی ایک ٹھٹھرتی شام کو'چھولنکھا' گاؤں کے مکین سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ پاکستانی حکام نے یہ علاقہ خالی کرنے کا حکم دے دیا۔
نوے سالہ حاجی محمد چو، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 12 دسمبر 1971ء کو ہی راتوں رات پورا علاقہ خالی کرا لیا گیا۔اس گاؤں کی خواتین، بچے اور بوڑھے پاک فوج کی مدد سے محفوظ مقام کے لیے وہاں سے نکل پڑے۔
لیکن گاؤں کے تقریباً تمام نوجوانوں نے وہیں رہ کر بطور رضاکار فوج کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جن میں سے کچھ شہید ہو گئے اور جو بچ گئے وہ بعد میں اپنے خاندانوں سے آ ملے۔
چھولنکھا گاؤں، گلگت بلتستان کے انتہائی مشرقی ضلع 'گانچے' میں کنٹرول لائن کے قریب آباد تھا۔ گانچے کی شمال مشرقی حدود چین(سنکیانگ/اویغور) سے ملتی ہیں، اس کے جنوب مشرق میں بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کا علاقہ لداخ (لیہہ) اور مغرب میں سکردو اور ضلع شگر واقع ہیں۔
حاجی محمد کہتے ہیں کہ جب گاؤں خالی کرایا جا رہا تھا تو کئی خاندانوں کے افراد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ وہاں سے کچھ لوگ مقبوضہ کشمیر(لداخ/لیہہ) کی طرف چلے گئے جو اب بھی وہیں رہتے ہیں۔
"تاہم ہمارے خاندان سمیت درجنوں گھرانے پاکستان کی محبت میں قریبی ضلعے سکردو میں آ گئے جہاں پاکستانی حکام نے انہیں دوباہ آباد کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ کئی برس بعد ہمیں زمینوں کی نشان دہی کر کے ان کا قبضہ دے دیا گیا لیکن اب ہمیں یہاں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔"

'ہم نے نئی الاٹ شدہ زمینوں کو مزدوریاں کر کے آباد کیا'
حکومت نے چھولنکھا گاؤں سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کو سکردو سے ملحقہ ضلع شگر کے موضع سرفہ رنگا یا سرفہ رنگا داس (داس مقامی زبان میں ریتلے میدانی علاقے کو کہا جاتا ہے) میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔
یہ علاقہ(سرفہ رنگا) سکردو شہر سے تقریباً 25 کلو میٹر پر تحصیل شگر کے حدود میں آتا ہے جہاں قریب ہی 'کولڈ ڈیزرٹ جیپ ریلی' منعقد کی جاتی ہے۔
حاجی محمد چو کا خاندان 1971ء سے اب تک کرائے کے مکانوں یا لیز کی زمینوں پر زندگی بسر کرتا چلا آ رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب سے وہ مہاجر ہوئے ہیں تب سے صرف فوج ان کا خیال رکھ رہی ہے مگر سول انتظامیہ نے کبھی تعاون نہیں کیا۔
"برسوں بعد ہمیں سرفہ رنگا میں اراضی کے ایک ٹکڑے کا قبضہ دیا گیا جہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں۔
ہم نے شہروں میں مزدوری کر کے ان زمینوں کو آباد کیا اور خون پسینے کی کمائی سے اس جگہ کو رہنے کے قابل بنایا۔ لیکن اب ہمیں خوف ہے کہ کچھ لوگوں کے مطالبے پر ہم سے یہ زمین بھی واپس لے لی جائے گی۔"

مقامی افراد بمقابلہ 71 کے مہاجرین: عدالتی جنگ کا آغاز
چھولنکھا گاؤں کے لوگ جب سکردو پہنچے تو یہاں 1948ء میں ہجرت کر کے آنے والے درجنوں خاندان پہلے سے موجود تھے جن میں سے بیشتر کو اسی ضلعے کے علاقوں حسین آباد اور حوطوتھنگ میں زمینیں الاٹ کی گئی تھیں۔ تاہم کچھ کو اراضی الاٹ نہیں ہو سکی تھی۔
چیف کورٹ گلگت بلتستان (جی بی)کی سکردو رجسٹری کے ایک کیس(جملہ اہلیان موضع سرفہ رنگا بنام صوبائی حکومت، مہاجرین وغیرہ، ریویو پٹیشن نمبر 63/2022ء) کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ مہاجرین کو 90ء کی دہائی میں پانچ ہزار 874 کنال اراضی الاٹ کی گئی تھی۔
موضع سرفہ رنگا میں جن مہاجرین کو زمین الاٹ کی گئی ان میں 1948ء میں آنے والے 169 خاندان اور 1971ء کی جنگ کے متاثرہ 267 خاندان شامل تھے جن کو 22، 22 کنال زمین دی گئی۔
تاہم موضع سرفہ رنگا کے مقامی باشندوں نے 1997ء میں اس الاٹمنٹ کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ ان الاٹ شدہ سرکاری زمینوں پر پہلا حق ان کا ہے۔ پانچ سال بعد یعنی 2002ء میں سول کورٹ نے فریقین کے درمیان مصالحت کی بنیاد پر فیصلہ جاری کر دیا۔
مصالحت کے نتیجے میں 1971ء کے مہاجرین 534 کنال(فی گھرانہ دو کنال) اراضی سے اہلیان موضع سرفہ رنگا کے حق میں دستبردار ہو گئے اور اس کے بدلے میں مدعی فریق نے الاٹمنٹ کو تسلیم کر لیا۔ مگر اس کے بعد بھی الاٹمنٹ پر مکمل عملدرآمد نہ ہو سکا۔
اس دوران الاٹمنٹ کا تنازع محکمہ ریونیو اور مختلف عدالتوں میں چلتا رہا۔ بالآخر 2022ء میں یہ معاملہ چیف کورٹ گلگت بلتستان کی سکردو رجسٹری میں جا پہنچا جہاں اہلیان موضع سرفہ رنگا نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔
چیف کورٹ گلگت بلتستان نے نومبر 2024ء میں نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں مہاجرین کی الاٹمنٹ کو تحفظ فراہم کر دیا گیا۔ مگر معاملہ یہاں پر نہیں رکا۔

48 کے مہاجرین بمقابلہ 71 کے مہاجرین: عدالت در عدالت
ماتحت عدالتوں اور چیف کورٹ میں جب مختلف درخواستیں زیر سماعت تھیں تو اس دوران 1948ء کے کچھ مہاجرین نے کیس دائر کر دیا جس میں موقف اختیار کیا کہ زمین کی الاٹمنٹ میں انہیں محروم رکھا گیا ہے لہٰذا انہیں بھی حق دیا جائے۔
محکمہ ریونیو کے اہلکار نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ مہاجرین کے دو گروپ ہیں جو آپس میں بھی عدالتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔
ان کے بقول 1948ء کے بیشتر مہاجرین کو اراضی الاٹ ہو چکی تھی لیکن بعد میں انہوں نے اپنے گھرانوں کی تعداد کو زیادہ ظاہر کیا اور سرفہ رنگا میں زمین الاٹ کرانے کے لیے درخواست دے دی۔ یہ کیس اب سپریم اپیلٹ کورٹ جی بی میں بھی زیرسماعت ہے جس سے معاملہ مزید طویل ہو گیا ہے۔
صدر آل مہاجرین 1971 محمد خان تصدیق کرتے ہیں کہ مہاجرین کی سرفہ رنگا کے مقامی لوگوں سے مصالحت ہو چکی تھی لیکن انہیں کبھی الاٹ شدہ زمین کے شجرہ (سرکاری دستاویز) منسوخی تو کبھی کسی اور بہانے سے تنگ کیا جا رہا ہے۔
'سرکاری اہلکار ہمیں بے دخل کرنے آئے لیکن مزاحمت پر واپس چلے گئے'
انہتر سالہ محمد خان جو اس وقت سکردو میں مقیم ہیں، بتاتے ہیں کہ انہوں نے 16 سال کی عمر میں چھولنکھا گاؤں چھوڑا تھا جہاں ان کے والد کی پندرہ کنال ملکیتی زمین تھی جس کا ریکارڈ ضلع گانچھے میں بھی محفوظ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں والوں نے وطن کے لیے ہجرت کی تھی جو پچھلے ایک ماہ سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر تاحال انہیں اپنی(الاٹ شدہ) زمینوں کا قبضہ نہیں دیا گیا نہ ہی کوئی سول ادارہ تعاون کے لیے تیار ہے۔ انہیں دکھ یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اس زمین کی دوبارہ الاٹمنٹ کرنا چاہتی ہے۔
"ہمارے جن لوگوں کو سرفہ رنگا میں زمین دی گئی تھی انہیں بھی بے دخل کیے جانے کا خطرہ ہے۔ سرکاری اہلکار کئی بار ان کے لوگوں کو بے دخل کرنے کے لیے پہنچے لیکن مزاحمت پر واپس چلے گئے۔ حکومت ہمارے مسائل حل کرے بصورت دیگر ہم کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔"

'16 سال کی عمر میں گھر چھوڑا تھا اب میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں وہ کب تک دھکے کھاتے رہیں گے'
اب سرفہ رنگا داس 'احتجاج کا میدان" بن کر رہ گیا۔ 1971ء کے متاثرین کو بے دخلی کے خطرے کا سامنا ہے جبکہ 1948ء کے مہاجر گھرانے داس میں زمینیں الاٹ کرانا چاہتے ہیں۔
مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کی زمینوں، چراہ گاہوں، حق اور آبائی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں مہاجرین کو مزید اراضی کی الاٹمنٹ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ نتیجتاً دو فریق یعنی 1971ء کے متاثرین اور مقامی لوگ کچھ عرصے سے داس میں آئے روز احتجاج اور مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔
حاجی محمد چو کہتے ہیں کہ انہیں اس ملک کے دیگر شہریوں کی طرح جینے کا حق ملنا چاہیے۔
"ہم نے تو جیسے تیسے زندگی گذار لی۔ اب ہمارے بچے بڑے ہو گئے ہیں وہ کب تک دھکے کھاتے رہیں گے؟ سکردو میں ہمارے کئی عزیزوں کے بہن بھائی اور بچے سرحد پار رہ گئے تھے۔ وہ عشروں سے ان کی جدائی برداشت کر رہے ہیں۔ یہ دکھ اپنی جگہ مگر اب تو ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اگر انتظامیہ ہمیں یہاں نہیں رکھنا چاہتی تو فی الفور بلتستان کے کسی اور علاقے میں منتقل کر دے تاکہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ سکون کا سانس لے سکیں۔"
تاہم مقامی لینڈ ریونیو حکام کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلوں کے منتظر ہیں۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اس پر عمل درآمد کرانے کے پابند ہوں گے۔
تاریخ اشاعت 11 فروری 2025