باجوڑ میں ٹرانس جینڈر افراد کی فلاح و بہبود کا پروگرام مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام

postImg

شاہ خالد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

باجوڑ میں ٹرانس جینڈر افراد کی فلاح و بہبود کا پروگرام مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکام

شاہ خالد

loop

انگریزی میں پڑھیں

انیس سالہ ٹرانس جینڈر نسرین بی بی مہینے میں دو تین مرتبہ باجوڑ کی تحصیل نواگئی کے گاؤں  سے 27 کلومیٹر سفر کرکے ضلعی ہیڈکوارٹر خار میں قائم محکمہ سوشل ویلفیئر کے دفتر آتی ہیں۔ وہ باجوڑ کی پہلی ٹرانس جینڈر خاتون ہیں جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے دوسال پہلے محکمہ سوشل ویلفیئر کے ساتھ رجسٹریشن کرائی تھی۔

رجسٹریشن کا مرحلہ اتنا آسان نہیں تھا۔ پہلے انہیں قومی شناختی کارڈ بنانےکا معاملہ درپیش تھا، جس کے لیے دستاویزات اکٹھی کرنے کی بھاگ دوڑ ہوئی، پھر اگلے مرحلے میں ادارے کے پاس نام کا اندراج کرانا تھا۔ ضلع باجوڑ میں رجسٹریشن کرانے والی وہ پہلی ٹرانس جینڈر خاتون تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ رجسٹریشن ہو گی تو روزگار کے حصول یا اپنی کمیونٹی کے حقوق کیلئے سرگرمیوں میں حکومتی تعاون کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔

نسرین بی بی کے مطابق وہ مہینے میں دو تین بار محکمہ سوشل ویلفیئر کے دفتر کا چکر لگاتی ہیں تاکہ حکام سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے مسائل پر بات ہو سکے۔ انہوں نےکئی مرتبہ محکمے کے ضلعی اہلکاروں کے سامنے اپنی ذاتی مشکلات کا تذکرہ بھی کیا جس میں نوکری کا مطالبہ بھی شامل تھا کیونکہ ان کے بقول مڈل تک سکول میں پڑھنے کے ساتھ انہوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ٹرانس جینڈرز افراد کیلئے مخصوص کوٹے پر نوکری دی جائے تاکہ ان کی معاشی مشکلات حل ہوسکیں۔ 

"میں گھر میں بچیوں کا مدرسہ بھی چلارہی ہوں، جس میں70 بچیاں  ناظرہ قرآن سیکھ رہی  ہیں اور ان سے میں کوئی فیس نہیں لیتی۔ مدرسے کے  انتظامات اور مالی معاملات میں میرے گھر والے، خاندان  کے دیگر افراد اور گاؤں کے کچھ لوگ بھی مدد کردیتے ہیں۔"

نسرین بی بی کے والد محنت مزدوری کرتے ہیں، جس سے گھریلو اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے نسرین کو مڈل تک پڑھایا، تاہم مالی مشکلات کے باعث مزید تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔

"میری دو بہنیں بھی ٹرانس جینڈر ہیں، ہمارے والد نے اپنی حد تک ہماری پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس پر بہت خوشی بھی ہوتی ہے لیکن معاشرتی رویوں اور لوگوں کی طرف سے طرح طرح کے القابات کی وجہ سے وہ زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتی ہیں۔"

محکمہ سوشل ویلفیئر کے ضلعی انچارج فضل امین باجوڑ میں ٹرانس جینڈر برادری کے مسائل کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے ڈائریکٹوریٹ کے سطح پر پچھلے سال  ایک میٹنگ کی تھی تاکہ باجوڑ کی خواجہ سرا برادری کی لئے کوئی پراجیکٹ شروع کرسکیں لیکن  ان کے پاس اب تک دوہی ٹرانس جینڈر رجسٹرڈ ہوئی ہیں جن میں ایک نسرین بی بی اور دوسری ان کی بہن ذاکرہ بی بی ہے۔

"اگر دیکھا جائے تو ساتویں مردم شماری کے  مطابق باجوڑ کی آبادی بارہ لاکھ 87 ہزار 960  افراد پر مشتمل ہے جن میں اندازے کے مطابق خواجہ سراؤں کی تعداد تین ہزار تک ہونی چاہئے۔ لیکن بد قسمتی سے سخت قبائلی روایات اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ٹرانس جینڈر افراد اپنی رجسٹریشن نہیں کرواتے۔ رجسٹریشن ہوگی، صحیح اعداد و شمار ہوں گے تو تب ہی ہم ان کیلئے کوئی پراجیکٹ شروع کرسکیں گے۔"

فضل امین نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے خاندان میں موجود ٹرانس جینڈرز افراد کی محکمہ سوشل ویلفیئر میں رجسٹریشن کرائیں تاکہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی پروگرام شروع کیا جاسکے۔

نسرین بی بی کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں ٹرانس جینڈرز افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے، لیکن قبائلی روایات اور گھریلو پابندیوں کی وجہ سے وہ  رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ پھر رجسٹریشن میں انہیں کوئی فائدہ بھی نظر نہیں آتا۔

"مجھے رجسٹریشن کرائے دوسال ہوگئے، لیکن ابھی تک میری کسی قسم کی  مدد نہیں کی گئی، ایسی صورتحال میں کوئی اپنے آپ کو کیوں رجسٹرڈ کروائے گا۔"

نسرین کے والد، پچاس سالہ نواز خان گاؤں کے قریب ایک کان میں روزانہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شروع میں انہوں نے نسرین اور  دوسرے ٹرانس جینڈرز بچوں کو ڈاکٹر کو بھی دکھایا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ علاج سے وہ دوسرے لوگوں کی طرح نارمل ہوسکیں گے لیکن ڈاکٹروں نے کہا یہ قدرتی طور پر ایسی ہیں اور ان کاعلاج نہیں ہوسکتا۔"

نواز خان کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے قسمت کا لکھا مان لیا اور انہیں یکساں توجہ دی، اس میں کوئی فرق نہیں کیا کہ یہ ٹرانس جینڈرہے۔ وہ اپنے بچوں کو نارمل ہی سمجھتے ہیں۔

"نسرین نے کبھی مجھے کمزور نہیں پڑنے دیا، وہ بہت محنتی ہے، مجھے اور اپنی بہنوں کو حوصلہ دلاتی ہے۔ ساتھ ہی وہ گاؤں کی بیمار خواتین کو ہسپتال لے جانے، نادرا دفتر میں شناختی کارڈ بنوانے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی مدد کے حصول کیلئے ان کے ساتھ جاتی ہے اور ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتی ہے۔"

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ممتاز محقق اور سماجی امور کے ماہر ڈاکٹر انور نگار خیبر پختون خواہ کے لوگوں کی معاشرتی و سماجی زندگی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے  خواجہ سراؤں کے حوالے سے عام معاشرتی رویوں کے  بارے میں کہا کہ حالیہ برسوں میں ان کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی بڑی وجہ آگہی کی کمی ہے، علم سے دوری نے عدم برداشت کو جنم دیا ہے۔ حکومتی سطح پر جتنے بھی قوانین ان کی فلاح و بہبود کیلئے بنے ہیں ان پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوجرانوالہ کا ٹرانس جینڈر سکول: 'ہمارے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں'

خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ٹرانس جینڈرز الائنس کی سربراہ آرزو خان کے مطابق صوبے بشمول قبائلی اضلاع میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں کیونکہ ایک تو مردم شماری میں بھی صحیح اعدادوشمار سامنے  نہیں آئے، پھر پشتون روایات اور لوگوں کے رویوں کی وجہ سے بھی وہ اپنی جنس چھپاتے ہیں۔آرزو خان کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بیس  ہزار سے بھی زیادہ ٹرانس جینڈر افراد موجود ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ صوبے کے دوسرے شہروں کی نسبت قبائلی اضلاع کے ٹرانس جینڈرز افراد کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں صوبائی ادارے ابھی پوری طرح فعال نہیں اور غیر سرکاری تنظیموں کیلئے بھی کام میں رکاوٹیں موجود ہیں۔

مذہبی سکالر مولانا نور محمد بنوری کے مطابق اسلام نے میراث میں ٹرانس جینڈرز کا بھی حصہ متعین کیا ہے، ریاست میں جس طرح دوسرے شہریوں کے حقوق ہیں، اسی طرح ٹرانس جینڈر افراد کے بھی حقوق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بیٹوں اور بیٹیوں کی طرح ٹرانس جینڈر اولاد کی کفالت بھی والدین کا فرض ہے، معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے کہ انہیں اچھا شہری بننے میں مدد دے، انہیں غلط ناموں سے نہ پکاراجائے اور ان کے ساتھ شفقت کا سلوک کیا جائے  کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔

نسرین بی بی فلاحی تنظیموں اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ  ملک کے دوسرے اضلاع کے طرح ان کو بھی اپنے حقوق دیے جائیں، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ باجوڑ کی ٹرانس جینڈر برادری میں تحفظ اور برابری کا احساس ہو اور جو لوگ ابھی تک رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ اپنی رجسٹرڈ کرواسکیں۔

تاریخ اشاعت 11 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شاہ خالد کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ وہ مختلف علاقائی اور قومی نیوز ویب سائٹس، میگزین، اخبارات اور ریڈیو کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.