"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

postImg

یوسف عابد

postImg

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

یوسف عابد

چونتیس سالہ سونیا احمد ملتان شہر کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے مختلف عدالتوں میں چھ سال طویل قانونی جنگ جیتی ہے۔ مگر انہیں انصاف نہیں مل سکا کیونکہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

وہ بتاتی ہیں کہ کیسوں کے اس گھن چکر میں ایک تو وہ اپنی پی ایچ ڈی مکمل نہ ہونے کے باعث ترقی سے محروم ہیں دوسری جانب وہ ذیابیطس سمیت متعدد امراض میں مبتلا ہو چکی ہیں جبکہ مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔

انہیں اپنے بیٹے کی کسٹڈی کے لیے ایک اور مقدمہ بھی لڑنا ہے۔

سونیا جب 20 سال کی  تھیں تو ان کی شادی ہو گئی تھی۔ شوہرکے نامناسب رویے کے باعث جلد ہی میاں بیوی میں اختلافات شروع ہو گئے تھے۔

 ایک بیٹے کی ماں بننے کے باوجود ان کی ازدواجی زندگی میں سدھار نہیں آیا۔

بالآخر 2017ء میں وہ حتمی فیصلہ کر کے اپنے والدین کے گھر آ گئیں اور خلع، نان نفقہ، سامان جہیز اور حق مہر کے حصول کے لیے فیملی عدالت ملتان سے رجوع کر لیا۔

ان کے سابق  شوہر نے روایتی قانونی حربے کے طور پر زن شوئی کا دعویٰ کر دیا اور عدالت میں مؤقف اپنایا کہ جہیز کے سامان کی واپسی اور حق مہر کی ادا ئیگی ہو چکی ہے۔

سونیا بتاتی ہیں کہ مقدمات کی پیروی، بھاری اخراجات، سامان کی رسیدیں اور حق مہر کی ادائیگی نہ ہونے کے ثبوت جمع کرنا، ہر کیس کے جواب الجواب کی تیاری، گواہوں کا بندوبست و دیگر قانونی لوازمات پورے کرتے کرتے وہ چکرا کر رہ گئیں۔

اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پدرشاہی نظام اور پسماندہ سوچ کی وجہ سے صنفی امتیاز (جینڈر گیپ) کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس پر طرہ یہ کہ یہاں صرف ایک سونیا احمد ہی نہیں ان جیسی ہزاروں بلکہ لاکھوں خواتین انصاف کے حصول کے لیے خوار ہو رہی ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کے گلوبل جینڈر گیپ  انڈیکس 2023ء میں پاکستان کو 146 ملکوں کی فہرست میں 142ویں نمبر پر دکھایا گیا ہے۔ یعنی پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے پانچ بدترین ملکوں شامل ہے۔

قانون کی کتابوں میں پاکستانی خواتین کو انصاف کی فراہمی کا کام 1961ء میں عائلی قوانین کے نفاذ اور 1964ء میں فیملی کورٹس کے قیام سے ہی بظاہر شروع کر دیا گیا تھا۔ تاہم یہ آگے کی طرف ایک قدم ضرور تھا مگر خواتین کے لیے انصاف کی منزل کوسوں دور رہی۔

1973ء کے آئین میں صنفی امتیاز کے خاتمے، خواتیں کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں اور زندگی کے تمام شعبوں میں جنسی تفریق کی حوصلہ شکنی جیسے اقدامات کیے گئے مگر ان کوششوں کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آ سکے۔

1977ء میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ نے اس وقت سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جب پردے کی پابندیوں اور متنازع شریعت قوانین کے اجراء کے نام پر خواتین سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے۔ اشک شوئی کے لیے مجلس شوریٰ میں عورتوں کا کوٹہ بڑھانا بھی بے سود ثابت ہوا۔

1988ء میں بے نظیر بھٹو برسراقتدار آئیں تو ان کی حکومت نے اگرچہ خواتین کو انصاف اور ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ویمن پولیس سٹیشنز، کورٹس اور ویمن بینک کے قیام جیسے اقدامات کیے مگر وہ وعدے کے باوجود ضیاءالحق کے خواتین مخالف متنازع قوانین منسوخ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

 تاہم پاکستان نے 1992ء میں 'خواتین کے خلاف تمام اقسام کے امتیازی اقدامات کے خاتمے کے عالمی کنونشن' (CEDAW) پر دستخط کیے جس کے بعد 2010ء تک پہلے خواتین کی ترقی کے لیے ویمن ڈویژن اور پھر اس کی الگ وزارت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ متنازع حدود آرڈیننس کا خاتمہ اور فوجداری قوانین میں ترامیم، منتخب اداروں میں خواتین کی 33 فیصد نمائندگی سمیت متعدد اقدامات بھی کئے گئے۔

تاہم شہریوں اور خاص طور پر خواتین کے لیے فوری اور سستے انصاف کا حصول آج بھی ایک خواب کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔

یہاں تک کہ جو خواتین اپنے حقوق کا مکمل ادراک بھی رکھتی ہیں ان کی راہ میں بھی عدالتی نظام اور معاشرتی و معاشی مسائل بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کو پنجاب کی 36 ڈسٹرکٹ کورٹس کی جانب سے قومی جوڈیشل پالیسی پر عملدرآمد سے متعلق 31 مارچ 2024ء تک کے زیر سماعت مقدمات کی رپورٹ بھجوائی گئی ہے جس کے مطابق پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں  تقریباً ایک لاکھ 14 ہزار سے زائد فیملی (خانگی) مقدمات  زیرِ التواء ہیں۔

ان خانگی زیر التوا مقدمات میں بیشتر تعداد یکم جنوری 2018ء سے دائر ہونے والے کیسز کی ہے جن میں ضلع لاہور سب سے زیادہ 16 ہزار 337 زیر التوامقدمات کے ساتھ سرفہرست ہے۔ جس کے بعد راولپنڈی، پھر ملتان اور ضلع فیصل آباد کا نمبر آتا ہے۔

زیر التوا کیسز نمٹانے یا انصاف کی فوری فراہمی کے لیے قومی جوڈیشل پالیسی (میکنگ) کمیٹی آرڈیننس 2002ء میں پرویز مشرف نے جاری کیا تھا جس کے تحت اس کمیٹی کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان کو مقرر کیا گیا تھا۔

تاہم اس جوڈیشل پالیسی کمیٹی کا پہلا اجلاس (کانفرنس) 2007ء اور دوسرا جون 2009ء میں ہوا۔ جس میں طے کیا گیا کہ دیگر مقدمات کے ساتھ فیملی کورٹ میں خواتین کے (خانگی) مقدمات تین ماہ میں نمٹائے جائیں گے۔ ان مقدمات کی اپیلوں کی سماعت مکمل کرنے کا ٹائم فریم دوماہ مقرر کیا گیا تھا۔

تاہم اس پالیسی کو ابتداء ہی سے وکلاء مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر 2012ء تک اس پالیسی میں ٹائم فریم سمیت کئی تبدیلیاں کر دی گئیں۔

یوں قانونی موشگافیوں، خواتین ججوں کی کمی، فیملی کورٹس کے مسائل اور عبوری احکامات کے خلاف اپیلوں کی وجہ سے اس پالیسی پر بھی حسب روایت پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوا۔

ضلعی عدلیہ میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد فیملی مقدمات کے فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود نئے مقدمات، التوا کی درخواستوں، وکلاء کی ہڑتالوں اور دیگر مسائل کے باعث زیرالتوا مقدمات کی تعداد برقرار ہے۔

ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ضلعی عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف ہزاروں زیر التوا اپیلیں الگ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ 2023ء میں جاری ورلڈ جسٹس پراجیکٹ  کی درجہ بندی میں قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے پاکستان 142 ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر اپنی جگہ بنا پایا ہے جبکہ خطے کے چھ ملکوں میں پاکستان پانچویں نمبر پر آتا ہے یعنی صرف افغانستان سے پہلے۔

ثمرہ عمران بلوچ بطور وکیل پریکٹس کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کہ گھریلو حالات سے تنگ خواتین عدالت سے رجوع کرتی ہیں مگر انہیں ہر مرحلے پر نئی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ سن کر ہی ان کے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں کہ انہیں بچوں کی تحویل سمیت ہر حق کے لیے الگ الگ مقدمات دائر کرنا پڑیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار'، ملتان میں 33 ہزار مقدموں کے چالان 4 سال سے عدالتوں کے منتظر

"بھاری اخراجات، گواہان اور دستاویزی ثبوتوں کا جمع کرنا ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے جبکہ تحریری جواب میں شوہر کے شرمناک الزامات اور غیر ضروری التوا جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ وہ مقدمات سے پیچھے ہٹ جائیں۔"

وہ کہتی ہیں کہ عدالت آنے پر خواتین کو دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ بعض اوقات انہیں لڑائی جھگڑے، تشدد، بچوں کے اغوا، گھر سے فرار اور بدکاری جیسے پولیس کیسز میں پھنسا دیا جاتا ہے۔

ایسے میں عورتوں کے لیے دوسری شادی کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا جبکہ مرد دوسری شادی کر کے اپنی زندگی میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی زہرہ سجاد زیدی ایڈووکیٹ کا ماننا ہے کہ بلا شبہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔

پاکستان میں خانگی مقدمات میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کبھی اقدامات نہیں کیے گئے جس سے کئی خواتین کی زندگیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ فیملی مقدمات جلد نمٹانے کے لیے خواتین ججز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے جبکہ عبوری آرڈرز کے خلاف اپیلوں کا حق ختم کر کے ٹائم فریم پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

سماجی رہنما طاہرہ نجم کہتی ہیں کہ انصاف کے حصول میں مشکلات نہ صرف خواتین کی صلاحیتیں چھین لیتی ہیں بلکہ آگے بڑھنے کے راستے بھی مسدود کر دیتی ہیں۔

ان کے خیال میں یونین کونسل کی سطح پر مصالحتی کونسلز فعال کی جائیں تو خواتین کے لیے آسانی ہو گی۔

سونیا احمد کا کہنا ہے کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اپنے سچ کو ثابت کرنے کے لیے بھی انہیں مردوں سے بھری عدالت میں غلیظ الزامات سامنا کرنا پڑے گا۔

 آئے روز گواہوں کو اکٹھا کرنا اور ملازمت سے چھٹی لینا آسان نہیں تھا لیکن مخالف فریق معمولی عذر کرکے زبانی درخواست پر اگلی پیشی لے لیتا تھا۔

"اس قانونی جنگ میں مجھ پر اور میرے والدین پر جو گذری وہ ناقابل بیان ہے جبکہ میں اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن انصاف میں تاخیر نے کچھ کر گزرنے کے سارے خواب چکنا چور کر دیئے جس کی قانون میں کوئی دادرسی نہیں ہے۔"

تاریخ اشاعت 26 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.