خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

اسلام گل آفریدی

عصمت اللہ، ضلع خیبر کے ایک نجی سکول میں پانچویں کے طالب علم ہیں جو چوتھے پیریڈ میں اپنے ساتھی ہم جماعتوں کو 'پشتو' کی کتاب میں پشتون روایات پر مبنی نظم 'حجرہ' پڑھا رہے تھے۔

عصمت اللہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے پشتو پہلی جماعت سے پڑھنا شروع کی جس کے باعث وہ آسانی سے اپنی مادری زبان لکھ اور پڑھ سکتے ہیں لیکن اُن کے بیشتر ہم جاعت  دیگر سکولوں میں زیر تعلیم رہے جہاں پشتو پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

اس سکول کے پرنسپل محمد فرمان بتاتے ہیں کہ ان کے ادارے میں تدریسی عمل 2018ء میں شروع  ہوا جہاں تبھی سے ہی بچوں کو پانچویں تک 'پشتو' بطور لازمی مضمون پڑھائی جا رہی ہے۔
"بچہ پانچ سال میں آرام سے اپنی مادری زبان لکھنا پڑھنا سیکھ لیتا ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ ان کے سکول میں پانچویں جماعت کے بعد تاریخ، جغرافیہ، کمپیوٹر، اردو، انگریزی، ڈرائینگ، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن و دیگر مضامین پڑھائے جاتے ہیں جبکہ سرکاری سکولوں میں عربی بھی پڑھائی جاتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے پہلی سے پانچویں جماعت تک کے تعلیمی نصاب میں مادری زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے باضابطہ قانون سازی کی گئی۔

صوبائی اسمبلی  نے  26 اپریل 2011 کو ' خیبر پختونخوا سپرویژن آف کریکولم، ٹیکسٹ بکس اینڈ مینٹیننس آف سٹینڈرڈز آف ایجوکیشن بل 2011ء' کی منظوری دی جو گورنر کے دستخط کے بعد اسی سال مئی میں ایکٹ بن گیا تھا۔

اس قانون کا مقصد مادری زبانوں کے نصاب کی تیاری، یہ مضامین پڑھانے کے لیے اساتذہ کی اضافی اسامیوں، ان کی تربیت اور درسی کتب کا انتظام کرنا تھا۔  

صوبے میں ابتدائی طور پر پانچ مادری زبانیں بطور لازمی مضمون  پڑھانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں پشتو، ہندکو، سرائیکی، کھوار(چترالی) اور کوہستانی شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا میں درسی کتابوں کی اشاعت کے ذمہ دار ادارے 'ٹیکسٹ بک بورڈ' کے ایک اعلیٰ عہدیدار جو اپنا نام شائع نہیں کرانا چاہتے، بتاتے ہیں کہ ماردی زبانوں کی نصابی کتابوں کی تیاری کا مرحلہ انتہائی مشکل اور پیچیدہ تھا۔

 پشتو کے تو پہلی سے ماسٹرز تک کے کورسز موجود تھے مگر باقی چار زبانوں کے حروف تہجی تک متفقہ نہیں تھے۔

"کھوار اور کوہستانی زبان کے نصاب کی تیاری پر مقامی لوگوں (دانشوروں اور اساتذہ) میں شدید اختلافات سامنے آئے۔"

وہ کہتے ہیں کہ طویل مشاورتی عمل کے بعد چترال کے لوگ کھوار کے مشترکہ نصاب  پر متفق ہو گئے لیکن کوہستانی زبان کا نصاب اب تک نہیں بن سکا۔

"ہم 2016ء تک  کوہستانی کے سوا چاروں مادری زبانوں کے کورسز تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی سال پشتو، ہندکو، سرائیکی اور کھوار کی تعلیم پہلی جماعت سے شروع  کر دی گئی جو اب آٹھویں جماعت تک پڑھائی جا رہی ہیں۔ نئے تعلیمی سال میں نویں جماعت کے لیے بھی نصابی کتب فراہم کر دی جائیں گی۔"

پاکستان کی 24 کروڑ ساڑھے چار لاکھ سے زائد کی آبادی میں ویسے تو 70 کے قریب( عالمی ویب سائٹ اتھنولاگ  کے مطابق 68) زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم 2023ء میں ہونے والی چھٹی مردم شماری  کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک میں سب سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہےجس کے بعد بالترتیب  پشتو، سندھی، سرائیکی، اردو  اور بلوچی کا نمبر آتا ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق خیبرپختونخوا کی کل آبادی تقریباً چار کروڑ ساڑھے چھ لاکھ ہے جن میں سے تین کروڑ 29 لاکھ 19 ہزار  افراد کی مادری زبان پشتو، 38 لاکھ 15 ہزار 327 کی ہندکو،12 لاکھ 88 ہزار 200 کی سرائیکی اور نو لاکھ 96 ہزار 182 کی مادری زبان کوہستانی ہے۔

اس صوبے میں لگ بھگ دو لاکھ 60 ہزار افرد اپنی مادری زبان اردو، ایک لاکھ پنجابی، 70 ہزار 140 شینا، 30 ہزار 636 بلوچی، 10 ہزار سندھی، چھ ہزار 471  کشمیری، پانچ ہزار 632 اپنی زبان کیلاشہ (کیلاش) اور 11 لاکھ 36 ہزار سے زائد لوگ دیگر زبانیں (بشمول کھوار) بتاتے ہیں۔

مادری زبانوں کی درسی کتب کی ڈیمانڈ

خیبرپختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کو سرکاری سکولوں سے نئے تعلیمی سال کے لیے مادری زبانوں کی درسی کتب کی ڈیمانڈ (طلب) موصول ہوچکی ہے۔

 لوک سجاگ کو فراہم کی گئی اس ڈیمانڈ کی تفصیل کے مطابق نویں جماعت کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں نے پشتو کی ساڑھے 27ہزار ، کھوار کی ایک ہزار 820، سرائیکی کی ایک ہزار 200 اور  ہندکو زبان کی 690 کتابیں مانگی ہیں۔

 تمام سرکاری سکولوں میں بچوں کو دیگر نصابی کتب کے ساتھ مادری زبان کی کتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ البتہ نجی تعلیمی ادارے یہ کتابیں مارکیٹ سے خرید لیتے ہیں جن کی تعداد انتہائی کم بتائی گئی ہے۔

ٹیکسٹ بورڈ کے مطابق نجی اداروں کے لیے صوبے میں مخصوص بک سیلرز کو ان کی ڈیمانڈ کے مطابق درسی کتب فراہم کی جاتی ہیں جو نجی سکولوں کے بچوں کو فروخت کرتے ہیں۔ تاہم پورے صوبے میں پشتو کے سوا کسی کتاب کی مانگ نہیں آئی جس کا مطلب ہے کہ بیشتر نجی اداروں میں پشتو کے سوا کوئی مادری زبان نہیں پڑھائی جا رہی ہے۔

اسدخان، پشاور صدر کے علاقے نوتھیہ میں قائم نجی سکول میں پانچویں جماعت کے طالب علم ہیں جن کی مادری زبان پشتو ہے لیکن وہ پہلی ہی سے ہندکو بطور مادری زبان پڑھ رہے ہیں۔ ہندکو کا بھی سکول میں کوئی باقاعدہ استاد نہیں ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہیں ہندکو بہت مشکل لگتی ہے لیکن مجبوری کی وجہ سے پڑھنا پڑ رہی ہے۔ اُن کے بقول وہ ہندکو زبان لکھ پڑھ سکتے ہیں مگر پشتو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔

اس سکول کے پرنسپل جواد حسین کہتے ہیں کہ ان کے ادارے میں مختلف زبانیں بولنے والے بچے پڑھتے ہیں جن میں ہندکو سپیکنگ زیادہ ہیں۔ اس لیے پانچویں تک دیگر بچوں کو بھی  ہندکو پڑھنا پڑتی ہے۔

لوک سجاگ نے پرائیوٹ سکولز ریگولیٹرٹی اتھارٹی کے حکام سے نجی سکولوں میں مادری زبانوں کی تعلیم کے حوالے سے باربار  رابطے کی کوشش کی مگر یقین دہانی کے باجود  کوئی جواب نہیں ملا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بچوں کو ناصرف اکثر نجی اداروں میں مادری زبانیں نہیں پڑھائی جا رہیں بلکہ سرکاری سکولوں میں بھی یہ مضامین پڑھانے کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔

کھوار زبان کے ماہر اور محقیق ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی بتاتے ہیں کہ 2011ء میں سکولوں میں  کھوار بولنے والے زیر تعلیم بچوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار تھی جو اب ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ  ہو چکی ہے مگر نویں کے لیے کتابوں کی ڈیمانڈ صرف ایک ہزار 800 آئی ہے۔

 وہ کہتے ہیں کہ سکولوں میں متعلقہ مضامین کے اساتذہ  بھرتی کیے بغیر مادری زبانوں کی ترقی اور پڑھنے والوں کے تعداد میں اضافہ ممکن ہی نہیں ہے۔

ضیاء الدین ، پشاور میں گندھارا ہندکو بورڈ کے جنرل سیکرٹری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر  قائم 'ہندکو اکیڈمی' کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندکو صوبے کی دوسری بڑی زبان ہے مگر اس کی ترقی و ترویج کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

 وہ بتاتے ہیں کہ ہندکو کو نصاب میں صرف اس بنیاد پر شامل کیا گیا کہ یہ پشاور، بنوں، لکی مروت، کوہاٹ، نوشہرہ، اکوڑہ خٹک، خیرآباد، صوابی کے کچھ علاقے، ہری پور، ابیٹ آباد، مانسہرہ اور گلیات کے وسیع خطے میں بولی جاتی ہے۔

"ہمارے ہاں سرکاری سکولوں میں پشتو  کے اساتذہ پہلے سے  موجود تھے مگر ہندکو، سرائیکی اور کھوار کے اساتذہ  بھرتی ہی نہیں کیے گئے۔ کسی کا محض اس بنیاد پر مذکورہ زبانیں پڑھانا کہ وہ اہل زبان ہے، بچوں کا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔"

وہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب تک کسی مضمون کو  اس کا ماہر اُستاد نہ پڑھائے تب تک کوئی کیسے توقع کرسکتا ہے کہ یہ زبان ترقی کرے گی۔

ڈاکٹر قیصر انور، ڈیر اسماعیل خان تعلیمی بورڈ کے کنٹرولر ہیں جنہوں نے سرائیکی زبان کے نصاب تیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ نصابی کتابوں کے حوالے سے محکمہ تعلیم کا اپنا ایک طریقہ کار ہے تاہم ٹیکسٹ بک بورڈ کو سکولوں سے آنے والی سرائیکی  کتب کی ڈیمانڈ سرائیکی بچوں کے نسبت بہت کم ہے۔کیوں کہ ان کے بقول ڈیرہ آئی خان  اور ٹانک کے بہت سے علاقوں میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔

خیبرپختونخوا میں علاقائی زبانیں کتنی ہیں

کوہستانی زبان پر 26 سال سے تحقیق کرنے والے طالب جان اباسندی  بتاتے ہیں کہ  خیبر پختونخوا میں ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ یعنی 27 زبانیں (بعض ماہرین  30 بتاتے ہیں)  بولی جاتی ہیں جس کی وجہ صوبے کا مختلف تہذبیوں کا مسکن ہونا ہے۔

 ان کے بقول بڑی زبانیں یہاں چھوٹی زبانوں کو ختم نہیں کر سکیں کیونکہ پہاڑو ں اور دریاؤں نے ثقافتی گروہوں کو اس طرح تقسیم کر رکھا ہے کہ کوئی گروہ کسی دوسری ثقافت پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکا۔

وہ کہتے ہیں کہ چترال(اپر اور لوئر) میں 12 زبانیں بولی جاتی  ہیں لیکن کھوار بولنے والوں کے تعداد سب زیادہ ہے۔ نصاب کی تیاری کے دوران بھی کچھ لسانی گروپوں نے کھوار پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا مگر پھر سب اسے( کھوار کو) اپنانے پر متفق ہو گئے۔

کوہستانی زبان کیوں نہیں پڑھائی جا رہی

طالب جان اباسندی کے مطابق صوبائی حکومت نے جب مادری زبانوں کو نصاب کا لازم حصہ بنانے کا فیصلہ کیا تو سرکاری دستاویز میں 'کوہستانی' زبان لکھا گیا جبکہ کوہستان میں چار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم دو زبانیں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے جن میں 'شینا کوہستانی' اور 'اباسین کوہستانی' شامل ہیں۔

مشرقی کوہستان میں شینا کوہستانی اور مغربی کوہستان میں اباسین کوہستانی بولی جاتی ہے۔ ان کے بقول دونوں زبانیں بولنے والوں کی آبادی پانچ پانچ لاکھ کے قریب ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب کوہستانی زبان کے حروف تہجی اور نصاب طے کرنے  کا عمل شروع ہو ا تو دونوں فریقوں کے درمیان تنازعہ شروع ہو گیا اور معاملہ 2014ء میں پشاور ہائی کورٹ جا پہنچا۔

عدالت   نے 2020ء میں کیس نمٹاتے ہوئے یہ معاملہ حل کرنے کا اختیار چیف سیکرٹری کو سونپ دیا جو اب تک طے نہیں ہو سکا۔ اس لیے کوہستانی زبان اب تک کورس میں شامل نہیں ہو پائی۔  

 معدومی کے خطرے سے دوچار زبانیں

تعلیمی نصاب میں شامل پانچ زبانوں کے علاوہ بھی خیبرپختونخوا میں دو درجن کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں توروالی، برکی یا اورمڑی، گوجری، گاوری، کیلا، کیلاشہ، پلولہ، یدغا، گوارباتی، شیخانی، دریشہ وغیرہ شامل ہیں۔

ملک بھر میں کیلاشہ  کی آبادی سات ہزار 466 ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں کیلاشہ بولنے والوں کی تعداد پانچ ہزار 632 ہے جو چترال کے تین دیہات میں رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

لوک رحمت کا تعلق کیلاش قبیلے سے ہے جو اپنی زبان و ثقافت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کیلاش کی زبان کے لیے علاقے میں 'کیلاشہ دور' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔

"ہم اس(کیلاشہ) کی ترقی و ترویج کے لیے 18بنیادی کتابیں تیار کر چکے ہیں مگر حکومت نے اس کو بچانے کا  کوئی انتظام نہیں کیا۔ کیلاشہ زبان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور اگر ایسا ہوا تو دنیا سے ایک نایاب ثقافت کا خاتمہ ہو جائےگا۔"

طالب جان اباسندی کا ماننا ہے کہ خیبر پختونخوا میں چھوٹی زبانوں کو موسمیاتی تبدیلی(سیلاب)، قدرتی آفات (زلزلہ) اور دہشت گردی نے شدید نقصان پہنچایا ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔

برکی زبان کی ترویج اور ترقی کے لیے کام کرنے والے ملک رفیع اللہ بھی طالب جان کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ضلع جنوبی وزیرستان کی "وادی کانی گرم' کے لوگ صدیو ں سے برکی یا اورمڑی زبان بولتے آ رہے ہیں جن کی آبادی لگ بھگ 50 ہزار ہے۔ لیکن  اکتوبر 2009ء میں آپریشن شروع ہوا تو ان سب لوگوں نے ٹانک،ڈیرہ اسمعیل خان و دیگر شہروں میں جا کر پناہ لے لی۔

 اب برکی قبائلیوں کے بچوں نے وہاں سرائیکی،پشتو اور دیگر زبانیں بولنے والے بچوں سے ان کی زبانیں سیکھ لی ہیں اور اپنی زبان بھولتے جا رہے ہیں۔

سوات میں پشتو سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے مگر بالائی سوات میں بہت سے لوگ اپنی مادری زبان توروالی، گاوری، گوجری، اشوجو اور کھوار بتاتے ہیں۔

زبیر توروالی، سوات کی تحصیل بحرین کے رہائشی ہیں جو مادری زبانوں کی ترقی کے لیے کام کے ساتھ  ایک ادارہ برائے تعلیم و ترقی(آئی بی ٹی) بھی چلا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ملک میں بیشتر لوگ اردو،پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اور ہندکو کو ہی پاکستانی زبانوں کے طور جانتے ہیں۔ جبکہ دیگر تقریباً 68 زبانیں بھی مقامی ابلاغ کا ذریعہ ہونے کے ساتھ اپنی اپنی تاریخ اور ثقافت کی امین ہیں۔

"اگر یہ(مقامی زبانیں) مٹ گئیں تو ان کے ساتھ ان کی تاریخ و ثقافت، علمی خزانے اور دیسی حکمت کے چشمے بھی خشک ہو جائیں گے۔"

ان کا ماننا ہے کہ جدید دنیا میں یکسانیت کے بیانیے دم توڑ رہے ہیں اور لوگ تنوع کو قبول کر رہے ہیں۔ قومی ترقی کے لیے لوگوں کو ان کی شناخت، زبانوں اور ثقافتوں سمیت لے کر چلنا ضروری ہے۔

"دنیا بہت آگے نکل چکی، برطانیہ میں پنجابی بھی مادری زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔

لیکن ہمارا ملک ابھی تک جدیدت اور نوآبادیت کے بیانیے میں پھنسا ہوا ہے جہاں لسانی و ثقافتی تنوع کو قومی یکجہتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں اس خبط سے نکلنا ہو گا۔"

تاریخ اشاعت 7 جنوری 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.