نعیم احمد | تاریخ اشاعت 17 اپریل 2024
فیصل آباد کے علاقے گلشن کالونی میں واسا دفتر کے باہر موجود سیف مسیح کسی ایسے شخص کے منتظر ہیں جو بند گٹر کھلوانے یا سیوریج لائن کی صفائی کے لیے ان کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ایسٹر کے روز بھی اس امید پر کام کی تلاش میں واسا دفتر آئے تھے۔
"جس کے پاس گھر میں دال، سبزی پکانے کے پیسے نہ ہوں اس کے لیے ایسٹر یا کرسمس، عید ہو یا بقرعید، بھی کوئی خوشی نہیں لاتا۔"
انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ پانچ برس سے یومیہ اجرت پر واسا میں اس امید پر بطور سیورمین کام کر رہے ہیں کہ شاید انہیں مستقل کر دیا جائے۔
"برسات سے پہلے جب سیوریج لائنوں کی صفائی کا وقت آتا ہے تو دو، چار ماہ کام مل جاتا ہے لیکن اس کے پیسے کئی کئی ماہ انتظار کے بعد ملتے ہیں۔ عام دنوں میں یہی کام پرائیویٹ طور پر کرکے گزارا کرنا پڑتا ہے۔"
سیف کے مطابق بیشتر عملے کو کام کے دوران گیس ماسک اور آکسیجن سلنڈر کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کی زندگی کا دارومدار کمر سے بندھے رسے پر ہوتا ہے۔
"ایک مرتبہ 10 فٹ گہری سیوریج لائن کی صفائی کے دوران میں خود گیس چڑھنے سے مرتے مرتے بچا تھا۔"
ایسے ہی ایک حادثے میں 17 مارچ 2024ء کو سیف کے بھائی آصف مسیح اور چچا زاد شان مسیح سرگودھا روڈ پر سیوریج کی صفائی کے دوران زہریلی گیس سے دم گھٹنے کے باعث دم توڑ گئے تھے۔
آصف مسیح واسا کے مستقل ملازم تھے جبکہ شان مسیح ورک چارج کے طور پر کام کرتے تھے۔
گزشتہ سال بھی اس طرح کے مختلف واقعات میں واسا کے تین ملازمین جاں بحق جبکہ متعدد شدید متاثر ہوئے تھے۔
واسا حکام کے مطابق حال ہی میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کے حکم پر صاف ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت شہر کے مرکزی بازاروں اور دیگر علاقوں کی سیوریج لائنوں اور گندے نالوں کی ڈی سلٹنگ مکمل کی گئی ہے۔
شہریوں کی شکایات پر جہاں جہاں مین ہولز/ گٹروں کے ڈھکن موجود نہیں تھے یا ٹوٹے ہوئے تھے وہاں ڈھکن لگائے گئے ہیں اور سکولوں، کالجز و مدارس میں طلبا کو صفائی کی اہمیت اور سیوریج لائنوں میں کوڑا نہ پھینکنے سے متعلق آگاہی لیکچرز دیئے گئے ہیں۔
تاہم اس صفائی مہم کے دوران اضافی ڈیوٹی دینے والے سیورمین یا دیگر عملے کو کوئی اضافی الاونس یا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے۔
بٹالہ کالونی واسا دفتر میں کام کرنے والے سیورمین شہباز مسیح کے مطابق مارچ کے مہینے میں ان کے روزے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں معمول سے زیادہ ڈیوٹی کرنے پر مجبور کیا گیا اور رات کے اوقات میں بھی حفاظتی سامان کے بغیر سیوریج لائنوں کی صفائی کروائی گئی۔
جمہوری ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری بنیامین سہوترا نے لوک سجاگ کو بتایا کہ واسا فیصل آباد کے قیام سے اب تک تقریبا پچاس کے قریب سیورمین اس طرح کے حادثات میں جان گنوا چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے سینٹری ورکرز کو سیفٹی کا سامان نہیں ملتا تھا لیکن اب گیس ماسک، گلاسز اور بیلٹ ملنے شروع ہو گئے ہیں لیکن ان کا معیار کمتر ہے۔
"سیورمین جس پانی میں اتر کر کام کرتا ہے وہ جان لیوا جراثیم والا پانی ہوتا ہے جس کی وجہ سے آنکھوں اور سانس کی بیماریاں تو سیورمینوں میں عام ہیں۔"
بنیامین کے مطابق غیر محفوظ حالات میں کام کرنے کے باعث سیورمین مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیمار کرنے کا باعث بنتا ہے لیکن نہ انہیں ویکسی نیشن کی سہولت دستیاب ہے نہ انہیں فری میڈیسن اور علاج کی سہولت ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں سیورمین کو دس سال کی ملازمت کے بعد ریٹائر کر دیا جاتا ہے اور اسے 25 سال کی ملازمت کے برابر مراعات ملتی ہیں۔
"وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جراثیم زدہ ماحول میں دس سال کی ملازمت 25 سال کام کرنے جتنی مشکل ہوتی ہے لیکن یہاں جو سیورمین بھرتی ہوتا ہے اس سے 25، 30 سال بھرپور کام لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی جلد خراب ہو جاتی ہے، آنکھیں اور پھیپھڑے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں لیکن انتظامیہ اتنی سخت دل ہے کہ ہفتے کے دن بھی رات گئے تک ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے تاکہ وہ اگلے دن چرچ جا کر عبادت نہ کر سکیں۔"
وہ بتاتے ہیں کہ محکمہ تو ملازمین کا استحصال کرتا ہی ہے لیکن سوسائٹی کا رویہ بھی ان کے ساتھ اچھا نہیں ہے۔
"کسی علاقے میں سیوریج لائن بند ہو جائے تو لوگ ہمیں بلاتے ہیں اور جب ہم کام کر رہے ہوتے ہیں تو پھر ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ کسی سے پانی مانگ لیں تو کہا جاتا ہے کہ بھاگ جاو تم لوگ چوڑے ہو۔"
ان کا کہنا تھا کہ سیوریج کی صفائی کرتے ہوئے کوئی سیورمین دم توڑ جائے تب بھی لوگوں کے دل میں رحم کے جذبات پیدا نہیں ہوتے اور وہ اس کی لاش کو اٹھانا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
برصغیر میں سیوریج کا نظام انگریز راج کے وقت شہری علاقوں میں تشکیل دیا گیا تھا۔
اس سیوریج سسٹم کے تحت نکاسی آب کے لیے زیر زمین سیوریج لائنوں کو صاف کرنے کے لیے "مین ہول" بنائے جاتے ہیں تاکہ سیورمین ان کے اندر داخل ہو کر اسے ہاتھوں سے صاف کر سکیں۔
تقریباً ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے جانے کے باوجود سیوریج کا یہ نظام انہی خطوط پر قائم ہے اور زیادہ تر سیوریج لائنوں کو فعال رکھنے کے لیے صفائی کی ذمہ داری سیورمین ہی نبھاتے ہیں۔
فیصل آباد میں 1960ء کے عشرے میں پہلی مرتبہ تقریبا دو لاکھ کی آبادی کو جزوی طور پر سیوریج سسٹم کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
1978ء میں واسا کے قیام سے پہلے تک سیوریج کے نظام کی دیکھ بھال میونسپل کارپوریشن کے تحت کی جاتی تھی۔
اس وقت شہر کی تقریبا 22 لاکھ سے زائد آبادی کو واسا کے سیوریج سسٹم کی سہولت حاصل ہے جس میں ایک لاکھ 27 ہزار 972 گھریلو، 18 ہزار 808 کمرشل اور 904 صنعتی صارفین شامل ہیں۔
یہ سیوریج سسٹم 34 فنکشنل ڈسپوزل سٹیشنوں اور 1711 کلومیٹر طویل سیوریج لائنوں اور 62 کلومیٹر طویل چار گندے نالوں پر مشتمل ہے جس کے ذریعے یومیہ 280 ملین گیلن سیوریج کے پانی کی نکاسی کی جاتی ہے۔
واسا حکام کے مطابق اس نظام کو فعال رکھنے کے لیے سال میں دو مرتبہ برسات کے آغاز سے قبل اور سردی کا موسم شروع ہونے سے پہلے تمام سیوریج لائنوں اور گندے نالوں کی صفائی کی جاتی ہے۔ بقول حکام عمومی صفائی کا کام تقریبا سارا سال ہی جاری رہتا ہے۔
لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی طرف سے سیوریج لائنوں کی صفائی کے لیے درکار حفاظتی سامان اور آلات کی فہرست میں 17 آلات و اشیاء شامل ہیں۔
اس کے باوجود آج بھی شہر کی مرکزی سیوریج لائنوں اور گلی، محلوں میں کام کرنے والے زیادہ تر سیورمین ان حفاظتی آلات و سامان سے محروم نظر آتے ہیں۔
مقامی غیر سرکاری آرگنائزیشن سنٹر فار لاء اینڈ جسٹس کی طرف سے 2021ء میں سو سے زائد سیورمین سے کئے گئے سروے میں 98 فیصد نے بتایا تھا کہ سیوریج لائنوں کے "مین ہولز" کی صفائی کے دوران انہیں ڈرائی سوٹ، گیس مانیٹر، آکسیجن سلنڈر، ہیڈ لیمپ، ائیر ریسپریٹر اور ائیر بلور اینڈ ایگزاسٹ فراہم نہیں کیا جاتا۔
تاہم واسا فیصل آباد کے پبلک انفارمیشن آفیسر ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ سیوریج لائنوں کی صفائی کے دوران عملے کو مکمل حفاظتی سامان فراہم کیا جاتا ہے۔
"واساکی طرف سے سیوریج لائنوں کی صفائی کے لیے سیورمینوں کو ہیلمٹ، پروٹیکشن ہارنس، گیس ماسک، سیفٹی شوز اور دیگر حفاظتی سامان دیا جاتا ہے اور ہر علاقے کے سپروائزر کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ کام کے دوران اس کا استعمال یقینی بنوائے۔"
انہوں نے بتایا کہ سیوریج لائنوں کی صفائی یا ڈی سلٹنگ کرنے والے عملے کی مجموعی تعداد 1200 کے قریب ہے جن میں سات سو افراد مستقل ملازم ہیں جبکہ ورک چارج ملازمین کی تعداد 450 ہے اور ان میں سے اکثریت کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔
انہوں نے 17 مارچ کو سیوریج لائن کی صفائی کے دوران مرنے والے آصف مسیح اور شان مسیح کے بارے میں بتایا کہ وہ دونوں پرائیویٹ طور پر ایک شادی ہال کے سیوریج کی صفائی کے دوران حادثے کا شکار ہوئے تھے۔
"پنجاب حکومت کے حکم پر آصف مسیح کے اہلخانہ کو 33 لاکھ روپے جبکہ ورک چارج ملازم شان مسیح کے لواحقین کو 78 ہزار روپے کے واجبات ادا کر دیئے گئے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی ہدایات پر آصف مسیح کی بیوہ کو 2049ء تک اپنے مرحوم شوہر کی تنخواہ ادا کرنے کے علاوہ متوفی کے ایک بیٹے کو 18 سال عمر ہونے پر ملازمت بھی دی جائے گی جبکہ شان مسیح کے گھر کے ایک فرد کو واسا میں بطور ورک چارج ملازمت دی جائے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شادی ہال انتظامیہ کی طرف سے بھی متوفین کے خاندانوں کو ساڑھے 27 لاکھ روپے امداد کا چیک فراہم کیا گیا ہے جو دونوں خاندانوں میں مساوی تقسیم کرایا گیا ہے۔
"ادارے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سیوریج لائنوں کی صفائی کے دوران سیورمین تمام تر حفاظتی انتظامات یقینی بنائیں لیکن اس کے باوجود کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو محکمے کی طرف سے متاثرہ ملازمین کی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے۔"
سالہا سال سے ورک چارج یا یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل نہ کئے جانے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے واسا انتظامیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
سنٹر فار لاء اینڈ جسٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر میری جیمز گل نے بتایا ہے کہ سیورمین کے لیے کام کے حالات اور معاشی فوائد میں بہتری اشد ضروری ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ڈیسنٹ ورک ایجنڈے کو صفائی کی صنعت میں لاگو کیا جانا چاہیے تاکہ کام کے دوران حفاظتی آلات کی فراہمی اور استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔
"کام کے دوران چوٹ لگنے اور حادثے کی اطلاع دینے کا طریقہ کار ہونا چاہیے تاکہ اس کے مطابق متاثرہ سیورمین کو بروقت طبی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہیلتھ انشورنس، رسک الاونس اور دیگر فوائد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی باقاعدگی سے طبی جانچ ہونی چاہیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ سیورمین کو حفاظتی آلات کے استعمال کی تربیت اور ان کے استعمال کی اہمیت سے آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ حفاظتی سامان کی عدم فراہمی پر اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔