سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف: کیا پاکستان تحریک انصاف اپنے مخالفین کے اتحاد کا کامیابی سے مقابلہ کر پائے گی؟

عبدالستار

تاریخ اشاعت 16 اکتوبر 2022

قومی اسمبلی کے حلقے این اے-22 میں 16 اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار (اور سربراہ) عمران خان کو انتخابی دھچکا پہنچنے کا سخت احتمال ہے کیونکہ ایک طرف ان کی جماعت یہاں اندرونی اختلافات کا شکار ہے اور دوسری طرف انہیں ایک تجربہ کار حریف کا سامنا ہے جسے ان کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ 

خیبرپختونخوا کے وسطی ضلع مردان کی دو تحصیلوں تخت بھائی اور کاٹلنگ پر مشتمل اس حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب کی وجہ 2018 کے عام انتخابات میں یہاں سے منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان کا استعفیٰ ہے۔ ان کی جماعت کے ایک مقامی کارکن اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ ضمنی انتخاب کے لیے چلائی جانے والی اس کی مہم شدید بے ربطی کا شکار ہے۔ 

اس کارکن کا کہنا ہے کہ "اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات ہیں کیونکہ اس وقت این اے-22 میں اس کے تین مختلف دھڑے کام کر رہے ہیں جن کا آپس میں شاید ہی کوئی ربط و ضبط ہے"۔ ان میں سے ایک دھڑے کی قیادت علی محمد خان کر رہے ہیں۔ دوسرے دھڑے کے سرخیل خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن اور سینئر صوبائی وزیر عاطف خان ہیں (جنہیں 2018 کے عام انتخابات کے بعد عمران خان نے ابتدائی طور پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بھی نامزد کیا تھا لیکن پھر سابق وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کی مخالفت کی وجہ سے ان کی نامزدگی واپس لے لی تھی)۔ تیسرا دھڑا خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن افتخار علی مشوانی کا ہے جو ضمنی انتخاب کی مہم میں سب سے پیش پیش ہیں۔  

اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے یہاں رہنے والے اہم قبائل میں سے کسی کی بھی مکمل حمایت حاصل نہیں جبکہ یہاں کے سب سے بڑے قبیلے مہمند کے تقریباً تمام سرکردہ لوگ عمران خان کے مقابلے میں جمیعت علمائے اسلام (فضل) کے امیدوار مولانا محمد قاسم کی حمایت کر رہے ہیں۔

ان میں ایک نمایاں نام خاور خان مہمند کا ہے۔ انہوں نے دسمبر 2021 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل کونسل تخت بھائی کے چیئرمین کے عہدے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر 24 ہزار ووٹ لیے تھے اور تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ تاہم اِس سال جولائی میں انہوں نے اپنے والد اور مہمند قبیلے کے ممتاز رکن افتخار خان مہمند سمیت جمیعت علمائے اسلام (فضل) میں شمولیت اختیار کر لی۔ افتخار خان مہمند ماضی میں ایک مقامی نشست سے چار مرتبہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ 

مولانا محمد قاسم کے حامیوں میں دوسرا بڑا نام صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے-54 سے منتخب ہونے والے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن جمشید علی مہمند کا ہے۔ انہوں نے 2018 میں این اے-22 کا انتخاب بھی لڑا تھا اور 36 ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے تھے۔ دسمبر 2021 میں ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں ان کے بھائی ممتاز علی مہمند نے بھی تحصیل کونسل تخت بھائی کے چیئرمین کے عہدے کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی حیثیت سے 33 ہزار سات سو 13 ووٹ حاصل کیے تھے اور دوسرے نمبر پر آئے تھے۔   

این اے-22 میں رہنے والے باقی بڑے قبائل میں یوسف زئی، اتمان خیل، خٹک، مشوانی، وردگ اور باجوڑی شامل ہیں۔ ان میں سے عمران خان کو مشوانیوں کی تقریباً مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ ان کی انتخابی مہم کے قائد افتخار علی مشوانی کا تعلق اسی قبیلے سے ہے۔ لیکن اس کی مقامی آبادی اتنی زیادہ نہیں کہ یہ اپنے طور پر انتخابی نتائج کو زیروزبر کر سکے۔ 

تاہم این اے-22 کے دوسرے بڑے قبیلے یوسف زئی کے زیادہ تر لوگ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے بہت سے افراد دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی منسلک ہیں جبکہ اس میں ایک بھی ایسا بااثر آدمی موجود نہیں جس کی بات سن کر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ووٹر اِدھر سے اُدھر ہو جائیں۔

مذہب کی سیاسی طاقت 

مولانا محمد قاسم ضلع مردان کے موضع شیر گڑھ کے رہنے والے ہیں جہاں وہ پچھلے 64 سال سے ایک مدرسہ چلا رہے ہیں۔ اس مدرسے سے ہر سال تقریباً تین ہزار طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد کا تعلق تحصیل تخت بھائی سے ہی ہوتا ہے۔ اس مدرسے سے پڑھے ہوئے سینکڑوں لوگ اب این اے-22 کے مختلف حصوں کی مساجد میں خطیبوں اور اماموں کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اپنے استاد کی انتخابی مہم میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

مولانا محمد قاسم انتخابی سیاست میں بھی کافی عرصے سے موجود ہیں اور 2002 اور 2008 کے عام انتخابات میں اسی حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں بھی قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن دونوں بار پاکستان تحریک انصاف کے علی محمد خان نے انہیں چند ہزار ووٹوں سے شکست دے دی تھی۔

پچھلے عام انتخابات میں تو ان دونوں میں محض دو ہزار 65 ووٹوں کا فرق رہ گیا تھا جبکہ اُس وقت تین دیگر امیدواروں نے اس حلقے سے مجموعی طور پر 77 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے تھے (جو علی محمد خان کے ووٹوں سے لگ بھگ 19 ہزار زیادہ تھے)۔ ان امیدواروں کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نواز، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ یہ تمام جماعتیں اب ضمنی انتخاب میں مولانا محمد قاسم کی حمایت کر رہی ہیں۔ 

حال ہی میں مولانا محمد قاسم کے بھائی حافظ محمد سعید تحصیل کونسل تخت بھائی کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے 45 ہزار آٹھ سو 81 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے قریب ترین حریف، پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار ممتاز علی مہمند، ان سے 12 ہزار ایک سو 64 ووٹ پیچھے رہے۔

اسی طرح کاٹلنگ کی تحصیل کونسل کے چیئرمین کا انتخاب بھی انہی کی جماعت جمیعت علمائے اسلام (فضل) کے مفتی حماد اللہ نے جیتا۔ انہوں نے 30 ہزار چار سو 74 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار زرشاد خان، تحصیل کونسل تخت بھائی میں اس جماعت کے امیدوار کی طرح، تیسرے نمبر پر آئے۔ انہوں نے محض 16 ہزار ووٹ لیے۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.