کیا بلور خاندان صوبائی حکومت سے ناراض تاجروں کی حمایت حاصل کر کے عمران خان کی مقبولیت کا توڑ کر سکے گا؟
تاریخ اشاعت 15 اکتوبر 2022
پشاور شہر کے قدیم حصے میں واقع جہانگیر پورہ روڈ پر شربت بیچنے والے 22 سالہ حارث علی کئی ہفتے سے پریشان ہیں کیونکہ حکومت نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اپنی دکان خالی کر دیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اِس سال 26 مئی کو خیبرپختونخوا کے محکمہ اوقاف نے انہیں ایک نوٹس جاری کیا جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ سات روز میں اپنا کاروبار سمیٹ لیں اور اپنی دکان حکومت کے حوالے کر دیں۔ لیکن وہ اب بھی اس امید پر اِس میں بیٹھے ہیں کہ "شاید حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کر لے"۔
ان کے مطابق تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی یہ دکان 32 سال پہلے ان کے والد نے ایک شخص سے لی تھی جسے وہ "ہر ماہ دس ہزار روپے بطور کرایہ ادا کرتے ہیں"۔ وہ پریشان ہیں کہ اس کی بندش کے بعد وہ اپنی روزی روٹی کیسے کما پائیں گے۔
تاہم حارث علی اس پریشانی کا سامنا کرنے والے واحد دکاندار نہیں بلکہ قدیم شہر کے ایک ہزار سات سو تاجروں کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ وہ سب ایسی دکانوں میں کاروبار کر رہے ہیں جن کی لیز، محکمہ اوقاف کے نوٹس کے مطابق، مارچ 2022 میں ختم ہو چکی ہے۔
یہ نوٹس ایک ایسی قانونی ترمیم کے تحت جاری کیا گیا ہے جسے خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے 12 نومبر 2021 کو منظور کیا تھا۔ اس کے مطابق صوبائی محکمہ مال عام اراضی کی طرح محکمہ اوقاف کی ملکیتی اراضی کا بھی باقاعدہ ریکارڈ مرتب کرے گا (کیونکہ اس سے پہلے ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا) تاکہ اس پر ناجائز طور پر قابض افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ اس ترمیم کے ذریعے محکمہ اوقاف کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اپنی ملکیتی جائیدادوں کا کرایہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق مقرر کر سکے۔ اسی طرح اس کے متعین کردہ چیف ایڈمنسٹریٹر کے پاس یہ اختیار بھی آ گیا ہے کہ وہ جب چاہے صوبائی حکومت کی منظوری سے ان جائیدادوں کی لیز ختم کر دے۔
نوٹس وصول کرنے والے تاجروں کو ان تمام اختیارات پر اعتراض ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت انہیں استعمال کر کے ان کا روزگار ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے ان کے خلاف احتجاج کے طور پر مئی 2022 میں انہوں نے قدیم شہر کے تمام بازاروں میں ایسے بینر اور پوسٹر آویزاں کیے جن پر محکمہ اوقاف کے اقدامات کو تاجر دشمن قرار دیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے پشاور کے دو مختلف مقامات پر دو مختلف دن احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔
پشاور کے چھوٹے تاجروں پر مشتمل انجمن، مرکزی تنظیم تاجران، کے صدر ملک مہر الہٰی کہتے ہیں کہ ان مظاہروں کے بعد "حکومت نے وعدہ کیا کہ یہ مسئلہ دو ماہ میں حل کر لیا جائے گا لیکن اس پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے "محکمہ اوقاف کے حکام سے ملاقاتیں کر کے ایک ایسا حل نکالنے کی بہت کوشش کی جو حکومت اور تاجروں دونوں کے لیے قابل قبول ہو"۔ لیکن، ان کے بقول، یہ سب ملاقاتیں "بے نتیجہ رہیں"۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ناکامی کے بعد مرکزی تنظیم تاجران سے منسلک تقریباً ایک سو 20 بازاروں کے دکانداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ قدیم شہر پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے-31 میں 16 اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں اسی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں گے جو محکمہ اوقاف کی دکانوں کا تنازعہ حل کرائے گا۔ اس فیصلے کے بعد ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے دونوں بڑے سیاسی فریقوں نے اِن تاجروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر عوامی نیشنل پارٹی کی ثمر ہارون بلور، جو قدیم شہر کے حلقے پی کے-78 سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی رکن بھی ہیں، ان کے پہلے احتجاج میں شامل ہوئیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رکن صوبائی اسمبلی ملک واجداللہ خان ان کے دوسرے احتجاجی مظاہرے میں موجود رہے۔
تاہم ثمر ہارون بلور کا کہنا ہے کہ ان کی احتجاج میں شمولیت کا مقصد محض ووٹ حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ تاجروں کو یقین دلانا تھا کہ وہ انتخاب میں ہار جیت سے قطع نظر ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کا خاندان "پچھلی پانچ دہائیوں سے ہر مشکل وقت میں مقامی تاجروں کا ساتھ دیتا آیا ہے"۔
اگر پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے ناراض تاجر ان کی بات کے قائل ہو کر ضمنی انتخاب میں عوامی نیشنل پارٹی کو ووٹ دے دیں تو اس کی انتخابی پوزیشن یقیناً خاصی مستحکم ہو جائے گی کیونکہ، مقامی سیاسی مبصرین کے مطابق، پشاور کی تاجر برادری کسی بھی مقامی انتخابی معرکے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
اس کی ایک مثال گزشتہ سال 19 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں دیکھنے میں آئی جب جمعیت علمائے اسلام (فضل) کے امیدوار زبیر علی نے واضح برتری سے پشاور کے میئر کا انتخاب جیتا۔ ان مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ زبیر علی کے والد حاجی غلام علی خود ایک تاجر ہونے کے ناطے مقامی تاجروں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
ہارون بلور 2018 کے عام انتخابات میں پی کے-78 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تھے۔ اُس سال 10 جولائی کو وہ پشاور کے علاقے یکہ توت میں ایک انتخابی جلسے میں شریک تھے جہاں سیاسی طور پر بااثر ایک مقامی خاندان کے سربراہ حاجی داگل ان کی جماعت میں شامل ہو رہے تھے۔ ابھی یہ اجتماع جاری تھا کہ ایک خودکش حملہ آور نے اس کے عین درمیان خود کو اڑا لیا جس کے نتیجے میں ہارون بلور سمیت 20 افراد ہلاک ہو گئے۔ ان میں حاجی داگل، ان کا بیٹا اور تین بھتیجے بھی شامل تھے۔ (بعد میں اس نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں ہارون بلور کی بیوہ ثمر ہارون نے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کے طور پر حصہ لیا اور کامیاب قرار پائیں۔)
اس ہولناک واقعے کے باوجود اُن عام انتخابات میں این اے-31 سے ہارون بلور کے تایا غلام احمد بلور محض 42 ہزار کے قریب ووٹ لے سکے اور پاکستان تحریک انصاف کے شوکت علی سے ہار گئے جنہوں نے تقریباً 88 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن اِس سال کے وسط میں شوکت علی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ سے اب اس نشست پر ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔
حاجی داگل کے بھائی حاجی خان کا کہنا ہے کہ ان کے گھرانے کے بیشتر ارکان اس ضمنی انتخاب میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار غلام احمد بلور کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ان کے بیٹے سید گل کو شکوہ ہے کہ بلور خاندان نے ان کے گھرانے کے پانچ افراد کی موت کے بعد ان کی بیواؤں اور بچوں کے روزگار کا بندوبست کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس لیے وہ اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں جس کے سربراہ عمران خان خود این اے-31 سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔
اگرچہ ان کی انتخابی مہم ان کی جماعت کے مقامی عہدیدار ہی چلا رہے ہیں لیکن اس کا انہیں زیادہ نقصان نہیں ہو رہا کیونکہ غلام احمد بلور بھی عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے اپنی انتخابی مہم خود نہیں چلا پا رہے۔ ان کی جگہ ان کے پوتے عظیم شبیر بلور اور ثمر ہارون بلور جلسے جلوس کر رہے ہیں اور گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
تاہم غلام احمد بلور کی جیت یقینی بنانے کے لیے انہیں شدید محنت کرنا ہو گی کیونکہ 2013 کے عام انتخابات میں جب اسی حلقے سے انہیں عمران خان کا مقابلہ کرنا پڑا تھا تو وہ لگ بھگ 66 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔ اگرچہ چند ہفتے بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے گل بادشاہ کو چھ ہزار ووٹوں سے شکست دے دی تھی لیکن اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ عمران خان کی حکومت بننے کا کوئی امکان نہ دیکھتے ہوئے مقامی ووٹروں نے غلام احمد بلور کو ووٹ دینے کو ترجیح دی کیونکہ انہیں وفاق کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حمایت حاصل تھی۔
اس کی دوسری بڑی اور زیادہ اہم وجہ یہ تھی کہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران خان نے پشاور کے بجائے کسی اور علاقے کے نمائندے کے طور پر پارلیمانی رکنیت کا حلف اٹھا لیا۔ اس سے پاکستان تحریک انصاف کے مقامی کارکنوں اور ووٹروں میں مایوسی پھیل گئی اور وہ ضمنی انتخاب میں ووٹ دینے کے لیے بہت کم تعداد میں گھروں سے نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جماعت کے امیدوار گل بادشاہ صرف 28 ہزار نو سو 11 ووٹ حاصل کر پائے۔
عظیم شبیر بلور کہتے ہیں کہ موجودہ ضمنی انتخاب میں بھی یہی صورت حال ہے کیونکہ اب بھی عمران خان آٹھ حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس بار بھی پشاور کے لوگوں کو خدشہ ہے کہ "اگر وہ این اے-31 سے جیت بھی گئے تو وہ اس کی نمائندگی نہیں کریں گے"۔ اس لیے انہیں امید ہے کہ مقامی ووٹر اس بار ان پر اعتبار کرنے کے بجائے ان کے دادا کو ووٹ دیں گے۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مقامی ووٹروں اور حمایتیوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ ایک طرف تو "شوکت علی 2018 کا انتخاب جیتنے کے بعد کبھی این اے-31 میں دکھائی نہیں دیے" جس کی وجہ سے ووٹر بہت ناراض ہیں اور دوسری طرف ان کی جماعت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی کارکردگی بھی قابلِ رشک نہیں رہی۔
تاہم این اے-31 میں پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم میں شامل صوبائی اسمبلی کی رکن عائشہ بانو کا دعویٰ ہے کہ پشاور کی عوام اب بھی عمران خان کو ہی جتوائیں گی کیونکہ وہ ان کی قیادت پر شدید اعتماد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق "ان لوگوں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کامیابی کے بعد یہ نشست اپنے پاس رکھیں گے یا اسے چھوڑ دیں گے"۔
شہید بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی پشاور میں شعبہ سیاسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زرمینہ بلوچ کو بھی عمران خان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ این اے-31 ایک شہری حلقہ ہے جہاں ووٹروں کی اکثریت پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کے ساتھ مضبوطی سے منسلک ہے۔ چونکہ پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر ایک انتہائی موثر انتخابی مہم چلا رہی ہے اس لیے "اس حلقے میں عمران خان کی سیاسی حمایت کی سطح کافی بلند ہے جبکہ ان کی حکومت کے خاتمے سے بھی انہیں کافی عوامی ہمدردی حاصل ہوئی ہے"۔
اگرچہ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ پشاور کے لوگ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں بلور خاندان کی قربانیوں کے معترف ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ بیشتر مقامی ووٹر غلام احمد بلور کو ووٹ دینے کے لیے پرجوش دکھائی نہیں دیتے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی خراب کارکردگی کو ایک موثر طریقے سے اپنے انتخابی بیانیے کا حصہ ہی نہیں بنا سکے۔