زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر: کیا کسانوں کا اتحاد این اے-24 کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے؟
تاریخ اشاعت 15 اکتوبر 2022
مفتی لطیف جان کی اولاد اپنی ایک سو 36 ایکڑ زرعی اراضی ایسے ایجنٹوں کو بیچ رہی ہے جو اس کی جگہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ اراضی مفتی آباد نامی قصبے کا حصہ ہے جو خیبرپختونخوا کے وسطی شہر چارسدہ کے شمال مشرقی نواح میں واقع ہے۔ اس قصبے کا نام مفتی لطیف جان اور ان کے بھائیوں مفتی اکرام جان اور مفتی شفیق جان کی مناسبت سے رکھا گیا تھا کیونکہ وہ تینوں یہاں ساڑھے سات سو ایکڑ زمین کے مالک تھے۔
اگرچہ ان کی اولاد نے 2011 تک اس میں سے چھ سو 14 ایکڑ اراضی انہی لوگوں کو بیچ دی تھی جو اسے تین نسلوں سے کاشت کر رہے تھے لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ باقی کی زمین کے سودے جائیداد کی خریدوفروخت کا کام کرنے والے ایجنٹوں کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ مفتی آباد کے نواحی گاؤں ہندکیانو کلے کے رہنے والے 55 سالہ عجب گل اور ان کے بھائی خائستہ گل جیسے مقامی کسانوں میں اس پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
عجب گل کہتے ہیں کہ وہ اس زمین کی "ایجنٹوں کو منتقلی کبھی بھی قبول نہیں کریں گے" کیونکہ ان کے خاندان کے روزگار کا مکمل انحصار اسی کی کاشت پر ہے۔ زمین کی منتقلی کے عمل کو روکنے کے لیے انہوں نے چند دیگر کسانوں کے ساتھ مل کر چارسدہ کی ایک عدالت میں ایک مقدمہ بھی دائر کر دیا ہے۔
تاہم یہ مسئلہ مفتی آباد تک محدود نہیں بلکہ، ایک مقامی سماجی کارکن شکیل وحید اللہ کے مطابق، "پچھلے آٹھ سالوں میں چارسدہ شہر کے اردگرد واقع بہت سا زرعی رقبہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہو گیا ہے" جس کے نتیجے میں ہزاروں کسان روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ چارسدہ کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن نے بھی حال ہی میں 11 ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نشاندہی کی ہے جو سرکاری قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کر کے زرعی اراضی پر بنائی جا رہی تھیں۔
مقامی کسانوں کا کہنا ہے کہ زرعی زمین کے استعمال میں اس تبدیلی کا بنیادی سبب 2014 میں صوبائی قانون کرایہ داری میں کی گئی ایک ترمیم ہے جسے خیبرپختونخوا اسمبلی سے منظور کرانے میں چارسدہ کے عوامی نمائندگان نے مبینہ طور پر اہم کردار ادا کیا تھا۔
اس ترمیم سے پہلے مقامی طور پر یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ زرعی زمین کے مالکان سب سے پہلے اسے کاشت کرنے والے کسانوں کو ہی پیش کش کرتے تھے کہ وہ اسے خرید لیں۔ لیکن اب مالکان کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اراضی جب چاہیں اور جسے چاہیں فروخت کر دیں۔ چونکہ زمینوں کی تجارت کرنے والے لوگ زرعی اراضی کی ایسی قیمت دے سکتے ہیں جس کے کسان کبھی متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے عجب گل کہتے ہیں کہ "اس ترمیم کے بعد مالکانِ اراضی صرف کاروباری لوگوں کو ہی اپنی زمینیں فروخت کرنا چاہ رہے ہیں"۔
تاہم اس صورتِ حال سے ناخوش کسانوں نے اس مسئلے پر شدت سے آواز اٹھائی ہے اور اسے مقامی انتخابی سیاست کا ایک اہم موضوع بنا دیا ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے یہ عہد بھی کر رکھا ہے کہ وہ تحصیل چارسدہ پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے-24 میں 16 اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں صرف اسی میدوار کو ووٹ دیں گے جو قانون کرایہ داری میں کی گئی اس ترمیم کو منسوخ کرائے گا۔
ماضی میں کسانوں اور مزدوروں کی سیاست سے منسلک رہنے والے ایک مقامی سیاسی کارکن محمد نظیف لالہ سمجھتے ہیں کہ کسانوں کا یہ اقدام ضمنی انتخاب کے نتیجے پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "چارسدہ شہر کے آس پاس دوسروں کی ملکیتی زمینیں کاشت کرنے والے کسانوں کی تعداد کم از کم 20 ہزار ہے اس لیے ان کے ووٹ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس انتخاب میں کون جیتے گا اور کون ہارے گا بشرطیکہ وہ سب مل کر ایک ہی امیدوار کو ووٹ دیں"۔
ڈاکٹر سہیل خان کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ پشتو کے سربراہ ہیں اور کہتے ہیں کہ "حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ضلع چارسدہ کی تحصیل تنگی میں متعدد کسان امیدواروں نے نامی گرامی سیاسی شخصیات کو ہرا دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ زرعی زمین کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیلی کے مسئلے پر انہیں عوامی حمایت حاصل ہے"۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ایمل ولی خان سمیت این اے-24 میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے ہر قابلِ ذکر امیدوار کو ان کسانوں کی سیاسی قوت کا اندازہ ہے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک ان سے وعدہ کر رہا ہے کہ منتخب ہونے کے بعد وہ ترجیحی بنیادوں پر زرعی زمین کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیلی کا مسئلہ حل کرائے گا۔
نئی سیاست بمقابلہ پرانی سیاست
کپڑے کی دکان پر سیلز مین کا کام کرنے والے 26 سالہ محمد ماجد نے 2018 کے عام انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی دونوں کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے حالانکہ ان کا خاندان ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام (فضل) کا حمایتی رہا ہے۔
وہ چارسدہ شہر کے غنی خان روڈ پر واقع کُلا ڈھیر نامی علاقے میں رہتے ہیں جہاں اپنے گھر پر پاکستان تحریک انصاف کا جھنڈا لہرانے کی پاداش میں انہیں اپنے والد اور چچا کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے "چچا نے اسے زبردستی اتار کر اس کی جگہ جمیعت علمائے اسلام (فضل) کا جھنڈا لہرا دیا تھا"۔
ان کی بستی این اے-24 میں شامل ہے جہاں سے 2018 کے عام انتخابات میں فضل محمد خان پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے تھے لیکن ان کے استعفے کی وجہ سے اب یہاں 16 اکتوبر 2022 کو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ اگرچہ انہیں شکایت ہے کہ سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ یافتہ ہونے کے باوجود انہیں ان کی جماعت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے کوئی سرکاری نوکری نہیں دی لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے دوچھوٹے بھائی ابھی بھی ضمنی انتخاب میں اسی کو ووٹ دیں گے۔
ان کے مطابق "اس فیصلے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں"۔ ان کے بجائے ان کی جماعت اگر کسی بھی اور امیدوار کو ضمنی انتخاب کے لیے نامزد کرتی تو محمد ماجد کہتے ہیں کہ وہ اسے ہرگز ووٹ نہ دیتے۔
این اے-24 میں عمران خان کے مدمقابل ایمل ولی خان ہیں جن کے دادا عبدالولی خان 1988 میں اسی حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے جبکہ 1993، 1997 اور 2008 میں ان کے والد اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خاں بھی یہیں سے جیت کر قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔ پچھلے 34 سالوں میں جمعیت علماءاسلام (فضل) نے بھی تین بار اس نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔
تاہم گزشتہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے فضل محمد خان نے 83 ہزار چار سو 95 ووٹ حاصل کر کے 59 ہزار چار سو 83 ووٹ لینے والے اسفند یار ولی خان کو بآسانی شکست دے دی تھی۔ اس حلقے میں موجود خیبرپختونخوا اسمبلی کی تین میں سے دو نشستوں پر بھی پاکستان تحریک انصاف کامیاب رہی تھی جبکہ تیسری نشست عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار نے جیتی تھی۔
لیکن تحصیل چارسدہ میں چند ماہ پہلے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایک بالکل مختلف سیاسی نقشہ سامنے آیا ہے کیونکہ تحصیل کونسل کے چیئرمین کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ظفر خان صرف 27 ہزار نو سو 39 ووٹ لے سکے اور تیسرے نمبر پر رہے جبکہ پہلے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام (فضل) کے امیدوار مفتی عبدلرﺅف آئے جنہوں نے 78 ہزار دو سو 12 ووٹ لیے۔ ان کا اصل مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تیمور خٹک سے رہا جنہوں نے 45 ہزار سات سو 22 ووٹ حاصل کیے۔
اسی طرح تحصیل چارسدہ میں شامل 78 دیہہ/محلہ کونسلوں میں سے 29 میں عوامی نیشنل پارٹی اور 26 میں جمعیت علمائے اسلام (فضل) نے کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان تحریک انصاف صرف چار کونسلوں میں ہی کامیاب ہو سکی۔
تاہم مقامی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں اس واضح شکست کے باوجود این اے-24 میں پاکستان تحریک انصاف کو ہرانا آسان نہیں ہوگا۔ چارسدہ شہر کے نواحی گاؤں سرکی سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ تجزیہ کار محمد نعمان خان کہتے ہیں کہ اس کی سب سے اہم وجہ عمران خان خود ہیں جنہوں نے اپنی سحر انگیز شخصیت کے سہارے "مقامی نوجوانوں کو خاص طور پر اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے"۔
اگرچہ عمران خان کے پاس نہ تو گھر گھر جا کر ووٹ مانگنے کا وقت ہے اور نہ ہی یہ ان کا انتخابی مہم چلانے کا انداز ہے لیکن محمد نعمان خان کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کی مقامی قیادت "صحت انصاف پروگرام کے تحت فراہم کی جانے والی مفت علاج معالجے کی سہولتوں کو ایک موثر انداز میں ووٹروں کے سامنے پیش کر رہی ہے"۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی یوتھ ونگ کے سابق مشیر 28 سالہ ملک بلال احمد اپنی جماعت کی انتخابی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ایک طرف ہم سوشل میڈیا پر بڑی موثر مہم چلا رہے ہیں اور دوسری طرف ہم این اے-24 کے مختلف حصوں میں جلسے جلوس بھی کر رہے ہیں اور لوگوں سے ووٹ بھی مانگ رہے ہیں"۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں اس حلقے کے لوگ "اس وقت عمران خان کے بیانیے کا ساتھ دے رہے ہیں جس کا واضح ثبوت چارسدہ میں 17 ستمبر کو ہونے والا ان کا جلسہ ہے جس میں لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی"۔
دوسری طرف، محمد نعمان خان کے مطابق، ایمل ولی خان پرانے طرزِ سیاست کے تحت اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ہر گاؤں اور محلے میں جلسے جلوس منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ گھر گھر جا کر ووٹروں سے رابطہ کر رہے ہیں۔ انہیں عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی جماعتوں، بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (فضل)، کی حمایت بھی حاصل ہے جن کے امیدواروں نے 2018 کے عام انتخابات میں این اے-24 سے بالترتیب 10 ہزار چار سو 62 اور 38 ہزار دو سو 52 ووٹ حاصل کیے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رکن صوبائی اسمبلی سلطان محمد خان بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ حال ہی میں انہوں نے اپنے خاندان سمیت عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
محمد نعمان خان کہتے ہیں کہ "ایمل ولی خان اپنی تقریروں میں اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ این اے-24 ہی کے باشندے ہیں اس لیے انہیں ووٹ دینے والے لوگ کسی بھی وقت ان کے گھر ولی باغ میں ان سے ملاقات کر سکتے ہیں جبکہ عمران خان کو کامیاب کرانے والے بعد میں انہیں ڈھونڈتے پھریں گے"۔