main-imagemain-image

سرسوں کی معجزاتی واپسی: منڈی کی دھکم پیل اور موسمیاتی تبدیلی کے اندھیرے میں امید کی نئی کرن

آصف ریاض

اس سال پاکستان میں ریکارڈ رقبے پر سرسوں کاشت کی گئی ہے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق امسال اس روایتی تیل دار جنس کا زیرکاشت رقبہ 12 لاکھ 82 ہزار ایکڑ ہے۔

اس سے زیادہ رقبے پر سرسوں 1973ء میں کاشت کی گئی تھی۔ 1974ء سے پاکستان نے ملائیشیا سے سستا پام آئل درآمد کرنا شروع کیا، جس کے بعد ہر سال امپورٹ کی مقدار بڑھتی گئی اور تیل دار اجناس کی مقامی پیداوار مسلسل گھٹتی گئی۔ اب پچاس سال بعد صورت حال یکدم پلٹ گئی ہے۔

اس وقت ملک میں سرسوں کے زیر کاشت رقبے کا 82 فیصد حصہ پنجاب میں ہے جہاں متعدد علاقوں میں یہ ایک سال میں ہی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ ان میں گوجرانوالا اور ملتان ڈویژن سرفہرست ہیں جہاں اس رقبے میں بالترتیب 314 اور 189 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سیالکوٹ کے گاؤں ڈنڈ پور کھرولیاں کے کسان رانا نصر اللہ نے پہلی مرتبہ 25 ایکڑ رقبے پر سرسوں اگائی ہے۔ وہ اس فصل کو اپنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں زمین سخت ہے جو پانی کو جلد جذب نہیں کرتی۔ اس لیے بارش کا پانی جب زیادہ دیر تک زمین میں کھڑا رہتا ہے تو گندم کی پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے لیکن سرسوں پانی کی کمی یا زیادتی دونوں کو باآسانی برداشت کر لیتی ہے-

آئیے دیکھتے ہیں کہ سرسوں کے بارے میں کسان کیا کہتے ہیں

Image 1

بہاول نگر

Image 2

فیصل آباد

Image 3

قصور

 آئیے دیکھتے ہیں کہ سرسوں کے بارے میں کسان کیا کہتے ہیں

بہاول نگر

 آئیے دیکھتے ہیں کہ سرسوں کے بارے میں کسان کیا کہتے ہیں

فیصل آباد

 آئیے دیکھتے ہیں کہ سرسوں کے بارے میں کسان کیا کہتے ہیں

قصور

پچھلے سال انھوں نے آزمائشی طور پر ایک کنال رقبے پر سرسوں اگائی تو اس میں کئی دن تک بارش کا پانی کھڑا رہنے کے باوجود فصل کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔

چکوال کے گاؤں بھگوال سے تعلق رکھنے والے غلام مرتضیٰ پہلے چار ایکڑ رقبے پر سرسوں اگایا کرتے تھے لیکن امسال انہوں نے آٹھ ایکڑ پر یہ فصل کاشت کی ہے۔ وہ سرسوں کی کاشت میں اضافے کو منڈی میں کھانے کے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت اور طلب سے جوڑتے ہیں۔ ان کے بقول پچھلے سال فروری اور مارچ میں ابھی فصل کی کٹائی باقی تھی اور کسانوں کو 8 ہزار روپے فی من سے زیادہ قیمت ملنا شروع ہوگئی تھی۔

ضلع خانیوال کے محمد منیر 51 پندرہ ایل گاؤں میں 12 ایکڑ زرعی رقبے کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی دو ایکڑ اراضی پر سرسوں کاشت کی ہے جبکہ باقی آٹھ ایکڑ پر گندم اور دو ایکڑ پر مویشیوں کے لیے چارہ اگایا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں سرسوں ایک ایسی فصل ہے جس کی پیداوار موسمی شدت یا کسی قدرتی آفت کے باعث کم بھی ہوجائے تو کسان گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ سرسوں اگانے پر دوسری فصلوں کے مقابلے میں بہت کم اخراجات آتے ہیں۔

اپنی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ سرسوں کے دو ایکڑ پر ان کا خرچہ 60 ہزار روپے سے بھی کم اٹھا جبکہ وہ اتنے رقبے پر اتنی رقم میں کوئی اور فصل کاشت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔انہیں سرسوں کی فروخت کے لیے نو ہزار روپے فی من قیمت کی پیشکش ہوئی ہے اور اس طرح وہ ساڑھے چار ماہ کی اس فصل پر تین لاکھ روپے تک کما لیں گے۔

قومی ادارہ شماریات کے مطابق جنوری 2021 میں پاکستان میں کھانے کے تیل کی اوسط قیمت 273 روپے فی کلو تھی جو سو فیصد اضافے کے بعد جنوری 2023 میں 543 روپے تک پہنچ گئی۔

مارکیٹ میں درآمدی تیل کی قیمت میں جس تیزی سے اضافہ ہوا اسی حساب سے سرسوں کے مقامی تیل کی قیمت بھی بڑھتی رہی جو جنوری 2021 میں 259 روپے فی کلو سے بڑھ کر جنوری 2023 میں 539 ہو گئی۔

main-imagemain-image

اس 'کامیابی' کا سہرا کس کے سر بندھے گا؟

فیصل آباد میں قائم ایوب ایگریکلچر آئل سیڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دان حافظ سعد بن مصطفیٰ کے مطابق سرسوں کے زیرکاشت رقبے میں اضافے کے پیچھے سرکاری تحقیقی اداروں کا اہم کردار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پانچ سال پہلے تک پنجاب میں سرسوں کی اوسط پیداوار 10 من فی ایکڑ تھی جو اچھے بیج تیار ہونے کے بعد اب 17 من تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے کسانوں کو ان کی فصلوں کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے اور انہیں مالی مراعات دینے سے بھی پیداوار میں اضافہ ہوا۔

تاہم غذائی ماہر اور تیل دار اجناس کے حوالے سے کئی تحقیقی مقالوں کے مصنف ڈاکٹر شاہد وحید اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے شروع ہونے والی روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور درآمدی تیل کے کنٹینروں کا پاکستانی بندرگاہوں پر پھنسے ہونا پاکستان میں سرسوں کی کاشت میں اس اضافے کے بنیادی اسباب ہیں۔

پچھلے سال اکتوبر میں حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے سویا بین اور کینولا کے بہت سے کنٹینر یہ کہہ کر بندرگاہوں پر روک لیے تھے کہ یہ اجناس جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج سے اگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ کی کمی کے باعث بھی درآمدی تیل کے بہت سے کنٹینر بندرگاہوں پر پھنسے ہیں۔

شاہد وحید کہتے ہیں کہ ان حالات میں تیل بنانے والے مقامی کارخانوں کے پاس سرسوں اور متعلقہ اجناس کی قلت پیدا ہو گئی۔ چنانچہ یہ کارخانے کسانوں کو ان کی فصل کا اچھا معاوضہ دینے پر مجبور ہو گئے۔

انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ عالمی اور درآمدی حالات معمول پر آنے کے بعد کسانوں کے منافعے میں ایک بار پھر کمی ہو سکتی ہے۔ اس لیے سرسوں کی کاشت بڑھانے اور کسانوں کو اچھی قیمت دینے کے لیے حکومت کو درآمدی تیل پر انحصار کم کرنے کی پالیسی اپنانا پڑے گی۔

قومی معاشی سروے 22-2021 کے مطابق حکومت کسانوں کو کینولا، سورج مکھی اور تل کے بیج/ ان پٹ کے لیے پانچ ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی دینے کے علاوہ انہیں نصف قیمت پر جدید مشینری بھی مہیا کر رہی ہے۔ تاہم جن کسانوں (منیر، نصراللہ اور غلام مرتضیٰ) سے لوک سجاگ نے بات کی ان کا کہنا ہے کہ انہیں نہ تو کبھی اعلان کردہ سبسڈی ملی ہے اور نہ ان کے علاقے میں کسی بھی کاشت کار کو کوئی مشینری فراہم کی گئی ہے۔

قومی زرعی تحقیقی ادارے (این اے آر سی) میں آئل سیڈ ریسرچ پروگرام کی پرنسپل سائنٹسٹ آفیسر ڈاکٹر طاہرہ وقاص کی رائے میں سرسوں کے تیل کی پیداوار بڑھانا ہر لحاظ سے فائدہ مند ہے چاہے اس کے لیے گندم درآمد ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

main-imagemain-image

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ سرسوں کا تیل صرف کھایا ہی نہیں جاتا بلکہ یہ رنگ و روغن، صابن، پولٹری اور لائیوسٹاک کی صنعت میں بطور خام مال بھی استعمال ہوتا ہے۔ جانوروں کے لیے تیار کی جانے والی سرسوں کی کھلی میں 40 فیصد تک پروٹین ہوتا ہے اور اس کے ساتھ تیل کی کچھ مقدار بھی پائی جاتی ہے جو ان کی صحت اور دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے بہترین چیز ہے۔

main-imagemain-image

ٹریڈ ڈویلمپنٹ اتھارٹی آف پاکستان(ٹی ڈی اے پی) کے مطابق پاکستان میں خوردنی تیل کی فی کس سالانہ کھپت 24 کلوگرام ہے، جو چین اور بھارت سمیت خوردنی تیل استعمال کرنے والے بڑے ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ پچھلے مالی سال میں پاکستان نے اپنی ضرورت کا 89 فیصد خوردنی تیل بیرون ملک سے منگوایا تھا۔

کھانے کا تیل پاکستان کی بڑی درآمدات میں شامل ہے۔ گذشتہ مالی سال میں پاکستان نے پونے چار ارب ڈالر کا پام اور سویابین آئل درآمد کیا جو ہماری کل درآمدات کا 4.7 فیصد بنتا ہے۔ اس کا موازنہ اس بات سے کر لیں کہ اسی سال پاکستان نے ٹیکسٹائل کے علاوہ جتنی بھی مصنوعات برآمد کی تھیں ان کی کل مالیت بھی پونے چار ارب ڈالر ہی کے قریب تھی۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں خوردنی تیل کی ملکی پیداوار سالانہ 1.3 فیصد اور درآمد 3 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔

ڈاکٹر شاہد وحید کو امید ہے کہ اس مرتبہ زیر کاشت رقبہ بڑھنے سے پاکستان کے درآمدی بل میں کمی آئے گی۔ علاوہ ازیں درآمدی تیل مہنگا ہونے سے لوگوں کا سرسوں جیسے مقامی اور قدرتی ذرائع کی طرف رجحان بھی بڑھے گا۔ وہ اسے انسانی صحت کے لیے بھی اچھا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں جو تیل اور گھی ملتا ہے اسے دیرپا بنانے کے لیے اس میں کئی طرح کے کیمیکل ڈالے جاتے ہیں جبکہ سرسوں کا تیل ان مضر مادوں سے پاک اور صحت بخش ہوتا ہے۔

اس رپورٹ میں شامل ویڈیوز کی تیاری میں فیصل آباد سے نعیم احمد، خانیوال سے چوہدری سرور نذیر، راجن پور سے مجاہد حسین، قصور سے افضل انصاری اور بہاولنگر سے کریم خان نے معاونت کی ہے۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.