تنویر احمد | تاریخ اشاعت 12 ستمبر 2024
بائیس سالہ پیٹر مسیح لاہور کی بستی یوحنا آباد میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور ایک نجی پلازے میں صفائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کے والد تین سال پہلے جگر کی بیماری میں مبتلا ہوکر انتقال کر گئے تھے۔
ان کے پانچ دیگر بھائی بھی سینٹری اور سیور ورکر ہیں۔
پیٹر بتاتے ہیں کہ ان کے والد سیور ورکر تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے سینیٹیشن ورکر بنیں بلکہ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے پڑھیں اور کسی دوسرے شعبے میں کام کریں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
"میرے والد مسلسل پریشان اور غصے میں رہتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے نشہ کرنے لگے تھے اور عمر کے ساتھ نشے کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انہیں بیماریاں لاحق ہو گئیں اور مجھے پندرہ سال کی عمر میں صفائی کا کام کرنا پڑا، جو وہ نہیں چاہتے تھے۔"
پیٹر مسیح بھی دو سالوں سے نشہ کر رہے ہیں لیکن اپنی اس عادت کو وہ بُری سنگت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے اکثر لوگ نشہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بھی لت پڑ گئی ہے۔
پیٹر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے والد نشہ کیوں کرتے تھے لیکن انہیں یہ ابھی تک یاد ہے کہ ان کے والد گٹر (مین ہول) کو 'موت کا کنواں' کہتے تھے۔
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گٹر صاف کرنے والے ورکرز کی اکثریت نشے کی عادی ہے جبکہ ان کے ساتھی عمانوئل بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
عمانوئل 15 سال سے سیور ورکر ہیں اور لاہور میں فیرز پور روڈ سے ملحق چائنہ بستی کے رہائشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نشہ اعصاب کو سُن کر دیتا ہے جس کے بعد کوئی بھی آدمی گندے سے گندہ اور خطرناک کام کر گزرتا ہے۔
وہ اس بات کی یوں وضاحت کرتے ہیں کہ جب انہوں نے سیورمین کا کام شروع کیا تو بدبو اور گندگی سے سخت پریشان رہتے تھے۔
پرانے ورکرز نے انہیں نشہ کرنے کا مشورہ دیا تھا جس پر کچھ عرصے تک انہوں نے عمل بھی کیا لیکن پھر اس سے نجات حاصل کر لی۔
ڈاکٹر عاصر اجمل، سائیکالوجسٹ اور گفٹ (گوجرانوالا انسٹیٹیوٹ آف فیوچر ٹیکنالوجیز) یونیورسٹی میں شعبہ سوشل سائنسز کے ڈین ہیں۔ وہ نشے کے اس استعمال کو 'سیلف میڈیکیشن' قرار دیتے ہیں جو انتہائی تکلیف دہ صورت ہے۔
"سیور ورکرز جس ماحول میں کام کرتے ہیں انہیں تھراپی، نفسیاتی معالج اور کلینکل سائیکالوجی کی سہولتیں دستیاب ہونی چاہئیں جو ہمارے ہاں ناپید ہیں۔ ان حالات میں ان ورکرز کا رحجان نشے کی طرف ہو جاتا ہے۔"
ڈاکٹر عاصر اجمل کا ماننا ہے کہ یہ نشہ عیاشی نہیں بلکہ دفاعی صورت حال ہے۔ صفائی کے کام سے منسلک افراد کے نشے کی لت میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ ان کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک بھی ہے۔
اگست کی دوپہر عمانوئل والٹن روڈ پر ایک بستی میں گٹر صاف کر رہے تھے۔ وہ گٹر میں پہلے بانس چلاتے ہیں پھر آستینیں چڑھا کر سیور لائن میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور اس میں پھنسے شاپر، اینٹیں کچرا وغیرہ باہر نکال لیتے ہیں۔
" یہ ہمارے کام کا سب سے آسان حصہ ہے کیونکہ گلیوں کے گٹر کی گہرائی کم ہوتی ہے جس میں زیادہ خطرہ نہیں ہوتا۔ تاہم بعض اوقات ان میں بھی شیشہ یا کوئی تیز دھار چیز لگنے سے ہاتھ پر زخم آ جاتے ہیں"۔
واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی (واسا) کے مطابق لاہو ر میں روزانہ تقریباً چھ ہزار 474 کیوسک گندے پانی کا اخراج ہوتا ہے جبکہ سیور لائنوں کی لمبائی تقریباً تین ہزار 610 کلومیٹر ہے۔
عمانوئل کہتے ہیں کہ سیور ورکر کا کام مشکل ہے لیکن وہ اسے کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ مسیحی ہونے کے ناطے ان کی کمیونٹی کے لیے روزگار کے مواقع انتہائی کم ہیں۔
اس بات کی تصدیق پاکستان ورکر فیڈریشن کی سروے رپورٹ بھی کرتی ہےجس کے مطابق لاہور کی لگ بھگ ایک کروڑ 30 لاکھ آبادی میں مسیحیوں کی تعداد تقریباً پانچ فیصد ہے۔ تاہم یہاں صفائی کرنے والے عملے میں ان کی تعداد 80 فیصد سے زیادہ ہے۔
عمانوئل کے خیال میں زیادہ تر مسیحی قبول کر چکے ہیں کہ وہ صرف کچرا اٹھانے اور گٹروں کی صفائی کا کام کر سکتے ہیں اس لیے اب اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی سرکاری یا نجی ادارے میں ملازم ہو جائیں تاکہ ماہانہ تنخواہ وصول کر سکیں۔
پاکستان ورکر فیڈریشن نے حال ہی میں لاہور میں صفائی کا کام کرنے والوں کے حالات سے متعلق ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے جس میں 200 کارکنوں کے انٹرویوز شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق صفائی کرنے والے 78 فیصد کارکن (یعنی 200 کارکنوں میں سے 156) ذہنی تناؤ کا شکار پائے گئے۔ واسا میں صفائی کرنے والے 90 فیصد ورکرز کو ذہنی دباؤ کا سامنا رہا جبکہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی( ایل ڈبلیو ایم سی) کے 72 فیصد کارکنوں نے ایسا بتایا۔
لاہور میں سرکاری سطح پر صفائی ستھرائی کا کام ایل ڈبلیو ایم سی جبکہ سیور لائنوں اور مین ہولز کی صفائی واسا کے پاس ہے جس کے زیادہ ملازمین ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
دونوں اداروں کے کارکنان میں افسردگی اور نفسیاتی صدمے (ٹراما)کی واضح علامات پائیں گئیں۔ تاہم کچھ نے کہا کہ"ہم اب اس کے عادی ہیں" اور کچھ نے بتایا کہ "وہ اس لیے افسردہ ہیں کیوں کہ ہمارے آس پاس ہر کوئی افسردہ ہے۔"
مرد کارکنوں کے مقابلے میں خواتین سینیٹری ورکرز میں ذہنی صحت کے مسائل زیادہ واضح تھے جن کا تناسب 91 فیصد تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ انہی اداروں میں کام کرنے والے مسلمان ملازمین میں ذہنی دباؤ کا تناسب کم تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق 80 فیصد مسیحی کارکنوں کو ذہنی تناؤ یا بیماری کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مسلم عقیدے سے تعلق رکھنے والے 62 فیصد صفائی ملازمین کو ذہنی دباؤ یا بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سروے رپورٹ کے مطابق جن ملازمین کی آمدن کم از کم اجرت کے قریب تھی ان میں ذہنی تناؤ کم اور جن کی تنخواہ تھوڑی تھی ان میں ذہنی دباؤ کی شرح زیادہ پائی گئی۔
پاکستان میں عام طور پر سینٹری ورکرز کے لئے دہری سماجی مشکلات ہیں۔
پہلی یہ کہ ان میں سے بیشتر مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں مذہب کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پہلے مرحلے پر ہی وہ اکثریت سے کٹ جاتے ہیں۔
دوسری مشکل یہ ہے کہ گندگی میں کام کرنے کی وجہ سے سینٹری ورکرز کو اپنی کمیونٹی میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عمانوئل تصدیق کرتے ہیں کہ سیور ورکر اور نسبتاً معاشی طور پر خوشحال اور دفاتر میں کام کرنے والے مسیحیوں کے مابین میل جول میں مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اسی لیے سیور ورکر اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عاصر اجمل کہتے ہیں "جب آپ ایسا کام کرتے ہیں جس میں زندگی کو خطرہ لاحق ہو اور سماج بھی آپ کو دھتکارنے لگے تو پریشانی یا انگزائٹی بڑھ جاتی ہے جو ناامیدی کو جنم دیتی ہے۔ لوگ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں اور راہ فرار کے لیے نشہ کرنے لگتے ہیں۔"
"ان کے پاس مہنگے نشے خریدنے کے وسائل نہیں ہیں اس لیے سستے اور غیر معیاری نشے سے زندگی کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔"
بطور سائیکالوجسٹ پیٹر کے والد کی موت کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے۔
صفائی ملازمین کے سب سے بڑی تعداد لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی سے وابستہ ہے جو فضلہ جمع کرنے، پروسیسنگ اور اسے ٹھکانے لگانے کا کام کرتی ہے۔
ٹریڈ یونین رہنماؤں کے اندازوں کے مطابق یہ تعداد 12 سے 14 ہزار کے درمیان ہے جن میں سے اکثر غیر مسلم ہیں۔
اس کے علاوہ نجی کاروباری ادارے، ہسپتال، یونیورسٹیاں، شادی ہال، دفاتر وغیرہ براہ راست یا کنٹریکٹرز کے ذریعے صفائی کے لیے ملازمین رکھتے ہیں۔ ان میں بھی اکثریت مسیحی لوگوں کی ہوتی ہے۔
سرکاری ادارے ہوں یا نجی، ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ کسی ادارے میں عملہ صفائی کو لیبر قوانین کے مطابق سہولیات میسر نہیں ہیں۔
ڈاکٹر عاصر اجمل کے بقول ایک کمیونٹی کو "پلید یا ناپاک" قرار دے کر ایک مخصوص شعبے سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
"گندگی کے کام کو مسیحی یا اقلیت سے منسوب کرنے کے پیچھے ذات پات اور اچھوت کے نظام کی سوچ ہے، جو مسلمانوں میں بھی چھوٹی ذاتوں کے ساتھ رویوں میں نظر آتی ہے جبکہ غیرمسلموں کے ساتھ یہ رویہ مذہبی شکل اختیار کر گیا ہے۔"
ڈاکٹر عاصر اجمل کا ماننا ہے کہ یہ کام اس اشتہار سے شروع ہوتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ "صرف غیر مسلم اپلائی کریں۔"
سیورج کا نظام پوری دنیا میں ہے لیکن کہیں ایسا اشتہار شائع نہیں ہوتا اور اوپر سے ان کے لیے حفاظتی اقدامات ہیں نہ ہی بہتر سہولیات۔
ڈاکٹر عاصر اجمل انگلیںڈ میں سات سال نیشنل ہیلتھ سروس کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ کریمنلز کے ساتھ یا کوئی ذہنی دباؤ والے کام کرتے تھے تو ان کے الاؤنسز، حفاظتی انتظامات اور چھٹیاں زیادہ ہوتیں تھیں۔
" لیکن یہاں ہم سب سے زیادہ مشکل اور تکلیف دہ کام کرنے والوں سے زیادہ کام لیتے ہیں اور انہیں سب سے کم سہولیات دیتے ہیں۔"
ورکر فیڈریشن کی رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ لاہور میں سینیٹیشن ورکز یا عملہ صفائی سے ڈیوٹی کی نسبت دو تہائی یعنی 68 فیصد زیادہ کام لیا جاتا ہے۔
سرکاری یا نجی کاروباری اداروں میں شاید ہی کوئی مستقل ملازم ہو، نہ ہی ان کے پاس معاہدے کا کوئی تحریری ثبوت ہوتا ہے۔
"ان ملازمین کو کوئی تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں حفاظتی سامان مہیا کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کو جلدی امراض، زخموں اور کچرے میں سانپ کاٹے کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔"
رپورٹ کے مطابق گٹروں ( مین ہول ) کی صفائی کرنے والوں کے لیے حالات اور بھی سنگین ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات زہریلی گیسوں اور ڈوبنے کی وجہ سے اموات ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عاصر کے مطابق یہ ساری تکالیف اور پریشانیاں جسم کی حد تک ہوں تو برداشت کی جا سکتی ہیں۔ لیکن جب یہ ذہن پر اثر ڈالتی ہیں تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور انسان حقیقی دنیا سے خیالی دنیا میں چلا جاتا ہے جسے سائیکوسس (Psychosis ) کہتے ہیں۔
ماہرین نفسیات اس صورت حال کو مایوسی کا نام دیں، احساس محرومی کہیں یا ستم ظریفی، پیٹر مسیح کا خیال ہے کہ چونکہ ان کے والد گٹر لائنیں صاف کرتے تھے اس لیے وہ یہی کرتے ہیں اور شاید ان کے بچے بھی یہی کام کریں گے۔