تنویر احمد | تاریخ اشاعت 8 اپریل 2022
خالد مسیح نے پہلا پوسٹ مارٹم ایک ایسے شخص کا کیا جس کی موت نہر میں ڈوبنے سے ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد خوف کے مارے وہ کئی دن سو نہیں سکے تھے۔
یہ واقعہ تقریباً 10 سال پہلے پیش آیا۔ اب انہیں کسی بھی لاش کا پوسٹمارٹم کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا کیونکہ ان کے بقول ان کے استاد نے انہیں "سمجھا دیا ہے کہ ڈرنا زندہ انسانوں سے چاہیے مُردوں سے نہیں"۔
خالد مسیح کی عمر 38 سال ہے۔ انہیں 2011 میں وسطی پنجاب کے ساہیوال ڈویژن میں واقع ایک سرکاری ہسپتال میں صفائی کرنے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔ لیکن تین ماہ بعد انہیں اسی ہسپتال سے منسلک مردہ خانے میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہیں پوسٹ مارٹم کرنے اور لاشوں کو سنبھالنے پر مامور اہل کار، مختیار مسیح عرف استاد پپو، کی معاونت کا کام سونپا گیا۔
پچھلی ایک دہائی میں انہوں نے تقریباً پانچ سو پوسٹ مارٹم بطور مددگار اور چار سو کے قریب اپنے طور پر کئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک انہیں اچھی طرح یاد ہے۔ مثال کے طور پر، اُن کے مطابق، ان میں سے 26 ایسے تھے جو دفن شدہ لاشوں کو قبروں سے نکال کر کیے گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ مردہ خانے میں آنے والی اکثر لاشیں اتنی کٹی پھٹی اور گلی سڑی ہوتی ہیں کہ ڈاکٹر ان کے قریب بھی نہیں آتے۔ تاہم وہ خود نہ صرف ایسی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں بلکہ انہیں اس قابل بھی بناتے ہیں کہ مرنے والوں کے لواحقین ان کی ٹھیک طرح سے تدفین کر سکیں۔
اس کام نے ان پر واضح نفسیاتی اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہ اپنے مخاطب سے آنکھ نہیں ملاتے بلکہ بات کرتے ہوئے مسلسل زمین کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ان کی گفتگو میں بار بار موت سے متعلق پنجابی شاعری کے حوالے آتے ہیں۔ مارچ 2022 میں ہونے والی ایک بات چیت کے دوران وہ مردہ خانے میں آنے والی لاشوں کی حالت پر تبصرہ کرتے تیز تیز لہجے میں کہنے لگتے ہیں:
مٹی کرے مٹی نوں سوال بندیا
(قبر کی مٹی، مٹی سے بنے انسان سے سوال کرتی ہے)
سن مٹی دا سنہیا ہوش نال بندیا
(اے انسان، مٹی کا پیغام غور سے سن)
پھر دا ایں میرے اتے چک چک اڈیاں
(آج تم میرے اوپر اکڑ اکڑ کر چل رہے ہو)
اک دن آئے گا بھن دیاں گی ہڈیاں
(ایک دن آئے گا جب میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گی)
لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال کے مردہ خانے میں کام کرنے والے ہارون مسیح کہتے ہیں کہ ان کے پاس اکثر اوقات ایسی لاشیں لائی جاتی ہیں جن کے کئی اعضا ٹوٹے یا کٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انہیں ایک گھٹڑی میں باندھا گیا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق "ایسی لاشیں ان لوگوں کی ہوتی ہیں جو یا تو کسی حادثے کا شکار ہوئے ہوتے ہیں، یا تیز وولٹیج والی بجلی کی تاروں سے جھلسے ہوئے ہوتے ہیں اور یا پھر بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے ہوتے ہیں"۔
ہارون مسیح کی عمر تقریباً 30 سال ہے اور وہ پانچ سال پہلے اسی ہسپتال میں بطور چوکیدار بھرتی ہوئے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ہی انہیں مردہ خانے میں تعینات کر دیا گیا تھا۔
پچھلے مہینے کی ایک رات ڈیوٹی دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "لاشوں کے درمیان رہنا آسان نہیں کیونکہ مردہ انسان کی بو دوسرے تمام جانداروں کی بو سے بری ہوتی ہے"۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کی سونگھنے کی حس اب ختم ہو گئی ہے۔
اس کے باوجود کچھ لاشیں ایسی ہوتی ہیں جن کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اب بھی انہیں شدید نفسیاتی اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول "ایسا عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب مردہ خانے میں کسی بچے کی لاش آتی ہے"۔
دوسرے سرکاری ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں کام کرنے والے مسیحی اہل کاروں کا بھی کہنا ہے کہ بچوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد وہ کئی کئی دن سو نہیں پاتے۔ ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ "میری خواہش ہوتی ہے کہ بچوں کا پوسٹ مارٹم کبھی نہ کروں لیکن مردہ خانے میں لائے جانے والے اکثر مردہ بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا پوسٹ مارٹم کرنا ضروری ہوتا ہے"۔
لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال سے منسلک مردہ خانے میں کام کرنے والے 36 سالہ عامر مسیح لاشوں کے بارے میں زندہ انسانوں کے رویوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "میں نے دیکھا ہے کہ لوگ سگے بھائیوں کی لاشوں سے دور بھاگ جاتے ہیں"۔ لیکن اس کے برعکس اُن جیسے اہل کاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے دن کا بڑا حصہ لاشوں کے درمیان گزاریں اور اس کے باوجود ہمیشہ اپنے ہوش و حواس برقرار رکھیں۔
مارچ 2022 کی ایک رات وہ مردہ خانے میں موجود ہیں۔ ان کے اردگرد ایسی تیز بو پھیلی ہوئی ہے جس سے پہلی بار دوچار ہونے والا شخص شاید فوراً قے کر دے۔
مردہ خانے کے اندر لوہے سے بنے چارپائی نما خانوں میں اوپر نیچے لاشیں رکھیں ہیں جن میں سے زیادہ تر نشئیوں کی ہیں۔ ایک لاش ایسی بھی ہے جس کے سر کا پچھلا حصہ کھوپڑی سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ کئی دیگر لاشوں کے اعضا اور گوشت کے لوتھڑے بھی اسی طرح لٹک رہے ہیں۔
عامر مسیح ان سب باتوں سے بے نیاز ایک مسخ شدہ لاش کے پوسٹ مارٹم کی تیاری کر رہے ہیں جسے دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ اسے کسی بھاری گاڑی نے کچل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "لاشوں سے دور بھاگنے، ان سے ڈرنے یا انہیں کراہت سے دیکھنے جیسے احساسات اس وقت ختم ہو جاتے ہیں جب آپ کو خود کسی سانحے کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔ ان کے مطابق "میرے لئے یہ سب چیزیں اس دن غیراہم ہو گئیں جس دن میرے اپنے بھائی کی لاش یہاں لائی گئی اور اسے شناخت کرنے کے لیے مجھے یہاں آنا پڑا"۔
ان نفسیاتی مسائل کے علاوہ مردہ خانوں میں کام کرنے والے اہل کاروں کو اپنے حالاتِ کار کے بارے میں کئی دیگر شکایات بھی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم شکایت یہ ہے کہ ان کی ڈیوٹی کے اوقات معین نہیں بلکہ، خالد مسیح کے مطابق، جیسے ہی مردہ خانے میں ایک لاش آتی ہے تو انہیں کام پر بلا لیا جاتا ہے خواہ "اس وقت دن ہو یا رات"۔
ساہیوال شہر میں واقع ایک سرکاری ہسپتال کے مردہ خانے میں کام کرنے والے 52 سالہ شفیق مسیح کو شکایت ہے کہ وہ دل کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن وہ نہ تو کام سے چھٹی کر سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازم ہونے کے باوجود حکومتی خرچے پر اپنا علاج کرا سکتے ہیں۔ ان کی اپنی آمدن اتنی اچھی نہیں کہ وہ اپنی جیب سے اپنے بیمار دل کی سرجری کرا سکیں۔ لہٰذا وہ دواؤں کے بجائے دعاؤں پر انحصار کر رہے ہیں جو، ان کے مطابق، اتنی بارآور ثابت ہو رہی ہیں کہ اب "انہیں علاج کے لیے ہسپتال جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی"۔
شفیق مسیح کسی بھی لاش کا انگوٹھا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بتا سکتے ہیں کہ وہ کتنے دن پرانی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہ "مہارت کتابیں پڑھنے سے نہیں آئی" بلکہ عملی تجربے کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوئی ہے۔
مختیار مسیح کو اس ضمن میں 'ماہرِ فن' کا درجہ حاصل تھا۔ وہ پپو استاد کے نام سے جانے جاتے تھے اور ڈسٹرکٹ ہسپتال پاک پتن میں کام کرتے تھے۔ 2019 میں کام کے دوران فوت ہونے سے پہلے وہ خالد مسیح سمیت سرکاری مردہ خانوں میں کام کرنے والے متعدد اہل کاروں کو پوسٹ مارٹم کرنے اور لاشیں سنبھالنے کا کام سکھا چکے تھے۔
لیکن پروفیسر ڈاکٹر خرم سہیل کہتے ہیں کہ غیر رسمی تربیت اور ذاتی تجربات کے ذریعے حاصل کی گئی اس مہارت کو پوسٹ مارٹم کے لیے استعمال کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ وہ فیصل آباد میں واقع عزیز فاطمہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج نامی نجی تعلیمی ادارے میں شعبہ فورینزک سائنس کے سربراہ اور سوسائٹی آف فورینزک میڈیسن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں اور کہتے ہیں کہ لاشوں کو صرف سائنسی طریقے سے ہی سنبھالا جانا چاہیے۔ اس لیے، ان کے مطابق، یہ کام صفائی والے عملے کو سونپنے کے بجائے مردہ خانوں میں باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا جانا چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس عملے کی عدم موجودگی میں مردہ خانوں میں کام کرنے والے مسیحی اہل کاروں کی ذہنی اور جسمانی صحت کو کئی خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ لاشوں کو سنبھالنے میں ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے ان میں موجود یرقان، ایڈز اور خون سے پھیلنے والی دیگر بیماریاں ان اہل کاروں کو لگ سکتی ہیں۔
لیکن، دوسری طرف، "انہیں ان بیماریوں سے بچانے کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے جاتے"۔ ڈاکٹر خرم سہیل کے مطابق حکومت نہ تو مردہ خانوں میں کام کرنے والے اہل کاروں کو خون سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچنے کے حفاظتی لباس مہیا کرتی ہے جس میں ایک خاص عینک اور مخصوص جوتے بھی شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی ایسی تربیت دی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو محفوظ رکھ سکیں۔
خالد مسیح ان کی باتوں کی توثیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ خانوں میں کام کرنے والے مسیحی عملے کو "کورونا وبا کے دنوں میں بھی کوئی حفاظتی لباس نہیں دیا گیا۔ عام دنوں میں تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔
پنجاب کے محکمہ صحت کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق صوبے کے ہر سرکاری مردہ خانے میں کم از کم دو پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ اہل کار متعین ہونے چاہئیں لیکن اس کے 37 اضلاع میں سے کم از کم 16 ایسے ہیں جہاں سجاگ نے یہ دونوں اسامیاں خالی ہونے کا کھوج لگایا ہے۔ ان میں اوکاڑہ، پاکپتن، ساہیوال، میانوالی، خوشاب، جہلم، خانیوال، ننکانہ صاحب، قصور، حافظ آباد، چنیوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، راجن پور، لیہ اور بہاولنگر کے اضلاع شامل ہیں۔
صوبے کے بڑے شہروں کے سرکاری مردہ خانوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ لاہور کے جناح ہسپتال اور میو ہسپتال اور فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں موجود مردہ خانوں میں بھی یہ اسامیاں خالی پڑی ہیں۔
ان حالات میں ان ہسپتالوں کی انتظامیہ محکمہ صحت کو بتائے بغیر لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے اور انہیں سنبھالنے کا کام صفائی کے لیے رکھے گئے ان پڑھ اور غیرتربیت یافتہ مسیحی عملے کو دے دیتی ہے۔ تاہم محکمے کے ترجمان حماد رضا اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں پنجاب کے سرکاری مردہ خانوں کے لیے درکار کُل اہل کاروں کی تعداد معلوم نہیں لیکن ساتھ ہی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا محکمہ بہت جلد تمام خالی اسامیوں پر بھرتیاں کرنے کے لیے اخبارات میں اشتہار جاری کرے گا۔
نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں لاہور کے صحافی خرم عباس نے تعاون کیا ہے۔