عوام بمقابلہ سیاست دان: 'ہم کئی دہائیوں سے ووٹ ڈالتے چلے آئے ہیں لیکن ہمارے حالات بہتر نہیں ہوئے'۔

نذیر لاشاری

تاریخ اشاعت 16 جولائی 2022

اوائلِ جولائی 2022 میں ایک کڑکتی دوپہر کو بستی مراد پور کے باسی بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور گرمی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر پانی کے ایک کھالے کے کنارے چارپائیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ یہاں درختوں کی چھاؤں میں جوان اور ادھیڑ عمر خواتین کپڑے دھو رہی ہیں، بڑے بوڑھے حقے کے کش لگاتے ہوئے تاش کھیلنے میں مشغول ہیں جبکہ بچے پانی میں اچھل کود رہے ہیں۔ 

یہ بستی پنجاب کے جنوبی ضلع مظفرگڑھ میں واقع پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی۔272 کا حصہ ہے جہاں 17 جولائی 2022 کو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ اس انتخاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک الگ تھلگ چارپائی پر بیٹھی 70 سالہ رحمت مائی کہتی ہیں کہ اس میں حصہ لینے والے امیدوار ترقیاتی کاموں کے وعدے تو کر رہے ہیں لیکن یہ وعدے کبھی پورے نہیں ہوں گے۔ 

ان کا تعلق بُلہ نامی مقامی بلوچ قبیلے سے ہے جس کے افراد کھیتوں میں محنت مزدوری کر کے روزی کماتے ہیں۔ کھجور کے پتوں سے چارپائیوں میں استعمال ہونے والا بان بُنتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان میں 50 افراد ہیں جن میں سے 25 لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ لیکن، ان کے مطابق، پچھلے کئی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے باوجود ان کے حالاتِ زندگی بہتر نہیں ہوئے۔ 

اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک جوان سال میاں بیوی کا بھی یہی خیال ہے۔ کھالے کے کنارے بیٹھے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "ہمارے باپ دادا کئی دہائیوں سے انتخابات میں ووٹ ڈالتے چلے آئے ہیں لیکن اس کے بدلے میں نہ تو ہمارے علاقے کی کچی سڑکیں پکی ہوئی ہیں اور نہ ہی مقامی آبادی کو تعلیمی سہولتیں ملی ہیں"۔ ان کے بقول "اس کے باوجود جو بچے پڑھ رہے ہیں انہیں سکول تک پہنچنے کے لیے روزانہ کئی کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ امن و امان کی صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ مغرب کے بعد لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلتے"۔

کھالے پر موجود لوگوں میں شامل ایک 20 سالہ بلوچ پھیری والے کا کہنا ہے کہ اس کا پورا قبیلہ 2008 سے ایک پرانے مقامی سیاستدان سید عبداللہ شاہ بخاری کے دو بیٹوں، باسط سلطان بخاری اور ہارون سلطان بخاری، کو ووٹ دیتا آیا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "اس دفعہ ہم نے اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والی مقامی معالج زرینہ نعیم کو اپنا امیدوار بنایا ہے"۔

تاہم اپنے قبیلے کی حمایت کے باوجود زرینہ نعیم ضمنی انتخاب کے نتیجے پر کوئی بڑا اثر ڈالنے کی سیاسی اہلیت نہیں رکھتیں۔  

بخاری بمقابلہ بخاری

پی پی-272 مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی پر مشتمل ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے باسط سلطان بخاری آزاد امیدوار کے طور پر جیتے تھے جبکہ ان کے بھائی ہارون سلطان بخاری پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کے طور پر چوتھے نمبر پر آئے تھے۔ چونکہ باسط سلطان بخاری قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ہوئے تھے اس لیے انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی جس کے نتیجے میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ان کی والدہ، زہرا بتول، نے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حصہ لیا اور فاتح رہیں۔ ان کے مدمقابل ان کے بیٹے ہارون سلطان بخاری نے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا اور دوسرے نمبر پر آئے۔

لیکن اِس سال اپریل میں زہرا بتول نے اپنی پارٹی سے منحرف ہو کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا ووٹ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حمزہ شہباز کو دیا جس کے باعث عدالت نے ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کر دی۔ اس اتوار کو ہونے والا ضمنی انتخاب انہی کی خالی کردہ نشست کو پر کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ 

اس میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی امیدوار باسط سلطان بخاری کی اہلیہ، زہرا باسط، ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار معظم علی خان جتوئی ہیں جو 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر اسی علاقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے کزن عبدالقیوم جتوئی بھی اُس سال ایک ملحقہ حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر مملکت مقرر کیے گئے تھے۔

پی پی-272 میں ہونے والے سابقہ انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں سیاسی نظریات اور جماعتی وابستگی کے بجائے ذات برادری اور دھڑے بندی کی بنیاد پر ووٹ دینے کا رجحان غالب ہے۔ اس رجحان کے تحت مختلف برادریوں کے لوگ کسی بااثر زمین دار کی قیادت میں ایک دھڑا بنا کر اپنی پسند کے امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔ جس امیدوار کو زیادہ یا بڑے دھڑوں کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے وہ اکثر جیت جاتا ہے۔ 

اگرچہ ان دھڑوں کی تشکیل میں اس حلقے میں رہنے والی ایک درجن سے زائد بڑی بڑی برادریاں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کی قیادت عام طور پر جتوئی، بخاری، لنگڑیال اور لغاری برادریوں کے پاس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف دونوں ہی کے امیدوار ایسے دھڑوں کے زیادہ سے زیادہ قائدین کی حمایت حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ 

چنانچہ ایک طرف جہاں زہرا باسط کو پنجاب اسمبلی کے سابق رکن قسور لنگڑیال اور راجپوت برادری کے سربراہ راؤ عاطف علی خان کی حمایت حاصل ہے وہاں دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے رکن خرم لغاری اور قومی اسمبلی کے سابق رکن جمشید دستی، معظم علی خان جتوئی کی حمایت کر رہے ہیں۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.