غلہ منڈی اور لکڑ منڈی کی شہر سے باہر منتقلی: 'سیاست دان ہر انتخاب کے موقع پر اس مسئلے کو اپنے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں'۔
تاریخ اشاعت 16 جولائی 2022
تین سال پہلے خواجہ محمد عارف کے والد کو دل کا دورہ پڑا تو وہ انہیں وقت پر ہسپتال نہ لے جا سکے جس کے باعث ان کا انتقال ہو گیا۔
وہ اُس وقت ملتان کی غلہ منڈی میں ایک آڑھت پر کام کرتے تھے اور کہتے ہیں کہ ان کے اہلِ خانہ نے ایک شام نو بجے انہیں فون کر کے جلد از جلد گھر پہنچنے کا کہا کیونکہ ان کے والد کی طبعیت بہت خراب تھی۔ چنانچہ، ان کے مطابق، انہوں ںے کام سے چھٹی لی اور اپنی موٹرسائیکل پر 45 کلومیٹر دور واقع قصبے شجاع آباد روانہ ہو گئے جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔
لیکن جونہی وہ غلہ منڈی سے نکل کر سڑک پر پہنچے تو وہاں اس قدر گاڑیاں تھیں کہ ان کے لیے حرکت کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک گھنٹہ وہیں پھنسے رہے حتیٰ کہ رات کے دس بجے کے بعد ٹرکوں کو بھی شہر میں داخلے کی اجازت مل گئی اور سڑک پر ٹریفک کی بھیڑ اور بھی بڑھ گئی۔ نتیجتاً انہیں شجاع آباد پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے حالانکہ عام طور پر انہیں اس میں محض ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
اس دوران ان کے والد طبی امداد نہ ملنے کے باعث فوت ہو چکے تھے۔
خواجہ محمد عارف کی طرح ملتان کے سینکڑوں لوگوں کی زندگی ہر روز غلہ منڈی کی اطراف میں ٹریفک کی بھرمار سے جنم لینے والے مسائل سے متاثر ہوتی ہے۔ کئی مقامی لوگوں کو اس کے قریب واقع لکڑ منڈی میں آنے جانے والی ٹریفک کے بارے میں بھی یہی شکایت ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں منڈیوں میں ہر وقت مال بردار ٹرکوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے۔ خصوصاً رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک ان کے اردگرد علاقوں میں ٹرکوں کی اتنی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں کہ باقی ٹریفک کی آمدورفت بہت محدود ہو جاتی ہے۔ اس لیے مقامی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہ رات دس بجے سے پہلے ہی ان علاقوں میں اپنے تمام کام نمٹا لیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سورج غروب ہونے سے لے کر شام نو بجے تک یہاں کی سڑکوں، خاص طور پر وہاڑی روڈ، پر ٹریفک کا دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ موٹر سائیکل سواروں تک کے لیے سفر کرنا محال ہو جاتا ہے۔
مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ اس بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے نہ صرف یہاں سے گزرنے والے لوگ روزانہ کئی گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں جس سے ان کے وقت اور پٹرول دونوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ اس علاقے میں آئے روز حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔
ان شکایات کی بنا پر وہ کئی سال سے مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں کہ غلہ منڈی اور لکڑ منڈی کو شہر سے باہر منتقل کیا جائے۔ پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-217 میں 17 جولائی 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے امیدواروں کو بھی اس مطالبے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ دونوں منڈیاں اسی حلقے میں واقع ہیں۔
تاہم تین نسلوں سے غلہ منڈی میں کریانے، مصالحہ جات اور خوردنی تیل کا کاروبار کرنے والے مرزا سرفراز سمجھتے ہیں کہ منڈیوں کو بیرون شہر منتقل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے بجائے ان کے اردگرد واقع علاقوں سے غیرقانونی تعمیرات اور سڑکوں پر بنائی گئی تجاوزات ہٹائی جانی چاہئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "مقامی سیاست دان ہر انتخاب کے موقع پر ان منڈیوں کی منتقلی کے وعدے کو اپنے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ ان میں سے کوئی بھی کبھی تجاوزات کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف بات نہیں کرتا"۔
ان کے برعکس لکڑ منڈی میں کام کرنے والے تاجر ممتاز علی بابر تسلیم کرتے ہیں کہ منڈیوں کی شہر میں موجودگی سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے کسی "اچھی متبادل جگہ کی غیرموجودگی میں ان کے چلتے ہوئے نظام کو اکھاڑ پھینکنا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی مناسب"۔
محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے مقامی ترجمان کہتے ہیں کہ ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے غلہ منڈی، لکڑ منڈی اور لوہا منڈی کو شہری حدود سے باہر منتقل کرنے کے لیے کئی جگہوں کا سروے بھی کیا ہے لیکن کبھی کسی سیاسی وجہ سے اور کبھی ان منڈیوں میں کام کرنے والے تاجروں کی مخالفت کے باعث اس معاملے پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے اس مقصد کے لیے ملتان میں موٹروے پر واقع شاہ رکن عالم انٹرچینج کے مشرق میں ایک جگہ زیرغور آئی تھی لیکن وہاں کے مکینوں نے اس تجویز کی شدید مخالفت کی جس کے باعث اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
اسی طرح، ان کے مطابق، منڈیوں کو ملتان سے دنیا پور جانے والی سڑک پر منتقل کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی لیکن اسے اس بنا پر رد کر دیا گیا کہ اُس علاقے سے گزرنے والی بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائنوں کی وجہ سے وہاں ٹرکوں کی آمدورفت ممکن نہیں۔
الزامات کی سیاست
پی پی-217 جن علاقوں پر مشتمل ہے ان میں سے 90 فیصد ملتان کی شہری حدود کے اندر واقع ہیں جبکہ باقی 10 فیصد علاقے دیہاتی ہیں۔ اس حلقے میں بنیادی مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار سلمان نعیم اور پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کے درمیان ہو رہا ہے۔
سلمان نعیم 2018 کے عام انتخابات میں ایک آزاد امیدوار کے طور پر خود شاہ محمود قریشی کو اسی حلقے سے شکست دے چکے ہیں اگرچہ اُن انتخابات کے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں ہی شمولیت اختیار کر لی تھی۔ تاہم اِس سال اپریل میں پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر انہوں نے اپنی جماعت کے 20 دیگر ارکان اسمبلی کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دیا جس کے نتیجے میں عدالت نے انہیں ان کی نشست سے ہٹا دیا۔
اِس اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات اسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔
ان میں حصہ لینے والے دونوں مرکزی امیدوار بھرپور طریقے سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وزیرِاعلیٰ حمزہ شہباز کی صوبائی حکومت پی پی-217 میں ترقیاتی منصوبوں پر بے دریغ پیسہ خرچ کر رہی ہے "جو انتخاب سے پہلے کی جانے والی دھاندلی ہے"۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان کے الزام کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر سے رپورٹ طلب کر رکھی ہے لیکن ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر محمد سلیم کا کہنا ہے کہ سرکاری دستاویزات کے مطابق ان ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کردہ فنڈ انتخاب کے شیڈول کا اعلان ہونے سے پہلے ہی جاری کیے جا چکے تھے۔
زین قریشی کی ایک مبینہ پیشکش کا بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نوٹس لے رکھا ہے جس میں انہوں نے ہر اس فرد کو ایک موٹرسائیکل بطور انعام دینے کا اعلان کیا ہے جو انہیں دس ووٹ ڈلوائے گا۔
تاہم اس تمام تر انتخابی سرگرمی کے باوجود دونوں انتخابی امیدواروں نے غلہ منڈی اور لکڑ منڈی کی وجہ سے تنگ آئے ہوئے شہریوں کے مسائل حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اس حوالے سے زین قریشی کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایک طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مطالبات یک طرفہ طور پر نہیں مان سکتے بلکہ اس کے بجائے وہ تاجروں سمیت تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ "وہ سب لوگوں کی باہمی مشاورت سے ہی اس مسئلے کا حل تلاش کریں گے"۔
دوسری طرف سلمان نعیم کا کہنا ہے کہ ان کی سیاست کا سارا زور اپنے حلقے میں ترقیاتی اور فلاحی کام کرانے پر ہے چنانچہ "منتخب ہونے کے بعد مقامی لوگوں کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ منڈیوں کی منتقلی کا مسئلہ بھی حل کرنے پر توجہ دیں گے"۔