کچی آبادیوں کے مالکانہ حقوق: 'جو شخص آپ کو چھت دے دے آپ بار بار اسی کو ووٹ دیتے ہیں'۔

تنویر احمد

تاریخ اشاعت 17 جولائی 2022

احاطہ مکھن سنگھ کی تنگ گلیوں میں درجنوں چھوٹے چھوٹے ڈبہ نما گھر بنے ہوئے ہیں جن کی ہر اوپری منزل نیچے کی منزل کی نسبت زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ ایک مقامی باشندے کے بقول "جوں جوں ہمارا خاندان پھیلتا جاتا ہے ہمارے گھر کی منزلیں بھی پھیلتی جاتی ہیں"۔ 

یہ بستی لاہور کے تقریباً درمیان میں واقع پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-158 کا حصہ ہے جہاں 17 جولائی 2022 کو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگ 1947 میں ہندوستان سے پاکستان آنے والے مہاجرین کی اولاد ہیں۔ ان میں سے 38 سالہ شکیل اکرم اپنے دادا سے سنی ہوئی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "جس جگہ ہم رہائش پذیر ہیں وہاں سکھوں کا قبرستان ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں ایک تالاب، گھوڑوں کا اصطبل اور گوردوارہ بھی ہوتا تھا"۔ لیکن، ان کے مطابق، "جوں جوں آبادی بڑھتی گئی ان تمام مقامات کی جگہ گھر بنتے گئے"۔ 

حکومتِ پنجاب نے احاطہ مکھن سنگھ کو ایک کچی آبادی قرار دے رکھا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی مکینوں کو یہاں رہنے کا حق تو حاصل ہے لیکن وہ اپنے گھروں کے مالک نہیں بن سکتے اور نہ ہی وہ انہیں بیچ سکتے ہیں۔ نتیجتاً شروع میں جس خاندان کے ہاتھ جتنی زمین لگی اس کی آنے والی نسلیں اسی میں رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ جو کوئی اپنا گھر چھوڑ کر چلا جائے گا وہ اس کے مالکانہ حقوق کا مطالبہ نہیں کر سکے گا۔ شکیل اکرم بھی اسی لیے ایک مرلہ (25 مربع میٹر) رقبے پر بنے ہوئے کئی منزلہ گھر میں اپنے چھ بھائیوں اور ان کے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے عہدِ حکومت (1999-2008) میں مقامی سیاست دانوں نے پہلی بار ان سے وعدہ کیا کہ انہیں ان کے گھروں کے مالکانہ حقوق دے دیے جائیں گے۔ لیکن انہیں شکایت ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود اس معاملے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار سردار ایاز صادق اور 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالعلیم خان دونوں نے ہی یہ وعدہ دہرایا تھا لیکن " منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ایک بار بھی اس علاقے کا رخ نہیں کیا"۔ 

احاطہ مکھن سنگھ کے ایک اور مکین رانا ناصر کہتے ہیں کہ جب وہ اس سلسلے میں انتخابی امیدواروں سے بات کرتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ "انہیں ان کے وعدوں کی بنا پر نہیں بلکہ ان کی طرف سے ووٹروں کو دیے گئے پیسوں کی بنیاد پر ووٹ ملے ہیں"۔

وہ اس بات کو اس حد تک صحیح تسلیم کرتے ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے والے "سیاستدان بااثر مقامی افراد کو اپنے انتخابی دفاتر کھولنے اور دوسرے انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے دیتے ہیں جن میں سے کچھ ووٹروں کی جیبوں میں بھی چلے جاتے ہیں"۔ لیکن، ان کے بقول "سیاست دان یہی سمجھتے ہیں کہ انہیں ملنے والے ووٹ محض اس پیسے کی منتقلی کا نتیجہ ہیں اس لیے وہ خود کو ووٹروں کے مسائل کے حل کا ذمہ دار نہیں سمجھتے"۔ 

'دنیا نہیں تو آخرت سہی'

پی پی- 158 میں طبقاتی تقسیم بہت نمایاں ہے۔ ایک طرف اس میں کیولری گراؤنڈ، مال روڈ ، زمان پارک، شادمان، گلبرگ، کنٹونمنٹ اور برج کالونی جیسے لاہور کے امیر ترین علاقے پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف دھرم پورہ ، میاں میر پِنڈ اور گلبہار کالونی جیسے غریب علاقے بھی اس کا حصہ ہیں۔ مزیدبرآں اس میں 15 کے قریب کچی آبادیاں بھی موجود ہیں جن میں احاطہ مکھن سنگھ کے علاوہ شاہ جمال کالونی، فاضلیہ کالونی ، احاطہ مول چند، بستی سیدن شاہ، میاں میر کالونی، قربان لائن، گلستان کالونی، چوبچہ، قاضی محلہ، نصرت کالونی، ریلوے اسٹیڈیم، باجا لائن، بستی اللہ ہو اور شوری کوٹھی نام کی بستیاں شامل ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر کئی ہزار خاندان رہتے ہیں۔

ان بستیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دینے کا سلسلہ 2002 کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کی صوبائی حکومت کے دور میں شروع ہوا اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں بھی جاری رہا۔ اس دوران نو مقامی کچی آبادیوں کے مکینوں کو ان کے گھروں کے مالکانہ حقوق ملے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس تمام عرصے میں نصرت کالونی میں ایک سو 12، احاطہ مول چند میں 13، شاہ جمال کالونی میں تین سو 90، شوری کوٹھی میں ایک سو 50، میاں میر کالونی میں دو سو 23، فاضلیہ کالونی میں 94، گلستان کالونی میں دو سو 17، بستی سیدن شاہ میں آٹھ سو 80 اور باجا لائن میں 94 خاندان ان گھروں کے قانونی مالک بن گئے جن میں وہ دہائیوں سے رہتے چلے آ رہے تھے۔

تاہم اس حلقے میں اب بھی چھ ایسی کچی آبادیاں موجود ہیں جن کے مکینوں کے پاس اپنے گھروں کے مالکانہ حقوق نہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ان میں سے صرف احاطہ مکھن سنگھ کی آبادی تین ہزار دو سو 80 نفوس پر مشتمل ہے۔ اسی طرح چوبچہ میں مجموعی طور پر چھ ہزار 49 لوگ، قربان لائن میں ایک ہزار دو سو 80 لوگ اور بستی اللہ ہو میں ایک ہزار نو سو 49 لوگ رہائش پذیر ہیں۔ انہیں مالکانہ حقوق نہ ملنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2015 کے بعد صوبائی حکومت نے ایسا کرنا بند کر دیا ہے۔ 

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ اپریل 2022 میں سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے بورڈ آف ریونیو کو ہدایت جاری کی تھی کہ اس عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے لیکن فی الحال اس سلسلے میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ 

تاہم جن بستیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق مل چکے ہیں وہاں انتخابی امیدوار ووٹروں کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ایسا انہی کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سابق صوبائی وزیر عبدالعلیم خان اپنی انتخابی تقاریر میں ہمیشہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پی پی-158 میں سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں کے مالکانہ حقوق دلائے ہیں۔

2015 کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ایک مقامی یونین کونسل کے چیئرمین بننے والے شیخ عمران اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو مالکانہ حقوق مل چکے ہیں وہ انہی امیدواروں یا جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جنہوں نے اس ضمن میں ان کی مدد کی ہے۔ اپنی بات کے ثبوت کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ "2018 کے عام انتخابات میں عبدالعلیم خان کو پی پی-158 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر شاہ جمال کالونی کے علاقے سے پانچ سو چھ ووٹوں کی برتری صرف اس لیے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اس کے مکینوں کو مالکانہ حقوق لے کر دیے تھے"۔

شاہ جمال کالونی کے رہنے والے بھی اس بات کی توثیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "جو شخص آپ کو رہنے کے لئے چھت دے دے آپ اس کے اتنے احسان مند ہو جاتے ہیں کہ بار بار اسی کو ووٹ دیتے ہیں"۔ 

احاطہ مکھن سنگھ کے رہنے والے لوگ بھی کہتے ہیں کہ وہ بھی ہمیشہ اسی امیدوار یا جماعت کو ووٹ دیتے جو انہیں مالکانہ حقوق لے کر دیتی۔ لیکن اب جبکہ انہیں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدواروں سے قطعاً امید نہیں کہ وہ اس معاملے میں ان کی مدد کریں گے تو وہ کہتے ہیں کہ اس دفعہ وہ دنیاوی بنیادوں پر ووٹ دینے کے بجائے مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ شکیل اکرم کے الفاظ میں، "اگر ہمارے دنیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تو کم از کم ہمیں اپنی آخرت ہی سنوار لینی چاہیے"۔ 

ووٹ کی طاقت

ڈاکٹر امداد حسین فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی میں شہری منصوبہ بندی کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کو ان کے مکانوں سے نہیں نکال سکتی کیوںکہ اس کی اپنی پالیسیوں کی رو سے "جس سرکاری زمین پر چالیس سے زیادہ گھر تعمیر ہو جائیں اسے ایک قانونی بستی کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے"۔ لیکن وہ کہتے ہیں ایسی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کو اپنے گھروں کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے تاکہ وہ سرکاری زمین کسی کاروباری ادارے یا فرد کو اونے پونے داموں بیچ نہ دیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی کے آغاز سے کچی آبادیوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ اُس وقت دیہاتی آبادی کی بڑے پیمانے پر شہری علاقوں میں منتقلی شروع ہوئی تھی۔ تاہم وہ کہتے ہیں اس بات کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے کہ لاہور میں کتنے لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں کیونکہ سرکاری مردم شماری میں اس حوالے سے کوئی اعدادوشمار اکٹھے نہیں کیے جاتے۔ ان کے خیال میں اس ابہام کی "دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کچی آبادیوں میں روزبروز  نئے گھر بن رہے ہیں اور ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے"۔ 

اس عمل کے نتیجے میں لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں کے متعدد انتخابی حلقوں میں ایسی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کے ووٹوں نے خاصی نمایاں اہمیت حاصل کر لی ہے۔ ڈاکٹر امداد حسین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ 2000 کی دہائی کے شروع سے "مختلف جماعتوں نے حکومت میں آنے کے بعد انہیں مالکانہ حقوق دینے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ وہ ان کے ووٹ حاصل کر سکیں"۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال اب خاصی بدل چکی ہے کیونکہ زیادہ تر کچی آبادیوں میں مالکانہ حقوق دے دیے گئے ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں پر اب اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بڑا انتخابی دباؤ باقی نہیں رہا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ ضمنی انتخاب میں احاطہ مکھن سنگھ میں رہنے والے لوگوں کی بات کوئی انتخابی امیدوار بھی نہیں سن رہا۔

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے: پاکستان تحریک انصاف کو اپنے ہی سابقہ کارکنوں اور اراکین اسمبلی کی مخالفت کا سامنا۔

تنویر احمد

تاریخ اشاعت 14 جولائی 2022

عمیر خان پاکستان تحریکِ انصاف کے پرانے کارکن ہیں لیکن اب وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی انتخابی مہم میں شریک ہیں۔اپنی سیاسی وابستگی میں اس تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "میں 18 سال ایک خواب کے پیچھے چلتا رہا لیکن اب مجھے پتا چلا ہے کہ وہ خواب جھوٹا تھا"۔ 

وہ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی یوتھ ونگ کے جنرل سیکرٹری اور مرکزی جلسہ مینجمنٹ کمیٹی کے رکن رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے "پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی خاطر جیلیں کاٹیں، پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان کے ساتھ مار کھائی اور جلسے جلوسوں کا انتظام کرنے کے لیے دن رات کام کیا"۔ لیکن انہیں شکوہ ہے کہ ان کی جماعت نے انہیں وہ عزت نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے۔

ان کے جاننے والے انہیں لکی خان کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ لاہور میں واقع پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-158 کے رہنے والے ہیں اور 17 جولائی 2022 کو اس حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار کے طور پر حصہ لینے کے خواہش مند تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نے اس ضمن میں انہیں کسی قابل ہی نہیں سمجھا۔ اس لیے 5 جولائی 2022 کو انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کے ساتھ ملاقات کی اور ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ 

انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ "پاکستان تحریک انصاف نے ہمیں موروثی سیاست کے خاتمے کا خواب دکھایا تھا لیکن اگر لاہور میں صوبائی اسمبلی کے چار حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو دیکھا جائے تو اس میں پرانے سیاستدانوں اور سابقہ ادوار میں منتخب ہونے والے لوگوں یا ان کے رشتہ داروں کو ہی انتخابی امیدوار نامزد کیا گیا ہے"۔ 

ان کی بات اس حد تک درست ہے کہ حلقہ پی پی-158 میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار میاں اکرم عثمان نہ صرف 2013 میں اسی جماعت کی طرف سے لاہور کے ایک اور حلقے سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں بلکہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور پنجاب اسمبلی کے رکن میاں محمود الرشید کے داماد بھی ہیں۔ ان کے والد میاں محمد عثمان بھی لاہور میں جماعتِ اسلامی کے ایک اہم رہنما رہے ہیں اور 1988 اور 1990 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد (جس میں جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ نواز دونوں جماعتیں شامل تھیں) کے امیدوار کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ 

لکی خان کہتے ہیں کہ میاں اکرم عثمان کے ان خاندانی تعلقات کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے مقامی کارکنوں کو ان کی انتخابی امیدوار کے طور پر نامزدگی کے حوالے سے تحفظات ہیں اس لیے "ان میں سے کئی ایک انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے رہے اور مایوس ہو کر گھر بیٹھے ہوئے ہیں"۔ وہ تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں مقامی کارکن "ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور کسی وقت بھی پاکستان مسلم لیگ نواز میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ موروثی سیاست کو یکسر مسترد کرتے ہیں"۔

ان کے دعوے کی جزوی توثیق اس بات سے ہوتی ہے کہ 2015 کے ضمنی انتخابات میں اسی حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتنے والے شعیب صدیقی بھی پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی حمایت کر رہے ہیں۔ لکی خان کے ہمراہ ایک انتخابی جلسے میں شمولیت کے دوران ان کا کہنا ہے کہ پی پی-158 کے جن علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کو زیادہ حمایت ملتی ہے وہاں "اس دفعہ نتائج مختلف ہونگے"۔ 

تاہم پاکستان تحریک انصاف کے ایک مقامی کارکن شیخ عمران کی نظر میں لکی خان یا شعیب صدیقی کے فریق مخالف سے جا ملنے سے ان کی جماعت کی انتخابی حمایت کم نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے کچھ ساتھی کارکنوں کو میاں اکرم عثمان کی نامزدگی پر تحفظات ضرور ہیں لیکن ںہ صرف وہ ان تحفظات کا اظہار اپنی جماعت کے اندر رہ کر کر رہے ہیں بلکہ وہ "جوش و جذبے کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ بھی لے رہے ہیں"۔ 

پرانے کھلاڑی، نئے داؤ پیچ

پی پی-158 کی ایک قابلِ ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شامل علاقے انتظامی طور پر لاہور کی تین مختلف تحصیلوں، ماڈل ٹاؤن، والٹن کنٹونمنٹ اور لاہور کنٹونمنٹ، میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ انتخابی طور پر یہ علاقے قومی اسمبلی کے تین حلقوں این اے-129، این اے- 130 اور این اے-131 میں منقسم ہیں۔ ان تین حلقوں میں سے دو ایسے ہیں جہاں سے 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما، خواجہ سعد رفیق اور سردار ایاز صادق، قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ تیسرے حلقے سے شفقت محمود رکنِ قومی اسمبلی بنے تھے۔ وہ نہ صرف چند ہفتے پہلے تک پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب کے صدر تھے بلکہ اپریل 2022 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے قبل وفاقی وزیرِتعلیم بھی تھے۔ یہ تینوں لوگ اپنی ذاتی اور سیاسی حیثیت میں پی پی-158 میں ہونے والے ضمنی انتخاب پر براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔  

ایک اور معروف سیاست دان عبدالعلیم خان بھی اس انتخاب میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی ایک اہم وجہ شہرت زمینوں کی خریدوفروخت کا کاروبار ہے جبکہ حال ہی میں انہوں نے سمانیوز نامی ٹیلی وژن چینل بھی خرید لیا ہے۔ لیکن ضمنی انتخاب کے حوالے سے ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 2018 کے عام انتخابات میں پی پی-158 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہو کر سابق وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار کی کابینہ میں سینئر صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔

تاہم نومبر 2021 میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ اختلافات کی بنا پر وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ رواں سال اپریل کے وسط میں انہوں نے اپنی جماعت کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے حمزہ شہباز کو ووٹ بھی دیا تھا جس کے باعث انہیں صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 

عبدالعلیم خان اس حلقے سے 2003 کے ضمنی انتخابات میں بھی پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے امیدوار کے طور پر جیت چکے ہیں۔ وہ 2008 کے عام انتخابات میں بھی اس حلقے سے پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے امیدوار تھے لیکن  محض نو ہزار کے قریب ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر  آئے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار محسن لطیف یہاں سے فاتح قرار پائے۔ 

2013 کے عام انتخابات میں اس حلقے میں محسن لطیف کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے شعیب صدیقی کے ساتھ ہوا جس میں محسن لطیف دوبارہ کامیاب رہے۔ لیکن 2015 میں ایک انتخابی عدالت نے اس نتیجے کو کالعدم قرار دے کر حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دیا۔ نتیجتاً انہی دونوں امیدواروں کے درمیان ایک بار پھر مقابلہ ہوا جس میں شعیب صدیقی تین ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیاب قرار پائے۔

اثرورسوخ بمقابلہ جماعتی وابستگی

موجودہ ضمنی انتخابات میں پی پی-158 لاہور کا واحد حلقہ ہے جہاں پاکستان مسلم لیگ نواز نے پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی کے بجائے اپنے 2018 کے امیدوار رانا احسن شرافت کو دوبارہ انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ پچھلے عام انتخابات میں وہ اسی حلقے سے عبدالعلیم خان کے مقابل دوسرے نمبر پر آئے تھے لیکن اس بار عبدالعلیم خان اور 2015 کے ضمنی انتخاب کے فاتح شعیب صدیقی نے انتخابی مقابلے سے باہر رہنے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

متعدد مقامی ووٹروں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اپنی انتخابی مہم میں ان دونوں کی عدم موجودگی کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عبدالعلیم خان نے نہ صرف اس حلقے میں پائی جانے والی متعدد کچی بستیوں کے مکینوں کو ان کے گھروں کے مالکانہ حقوق دلائے ہیں بلکہ ان کی قائم کردہ عبدالعلیم خان فاؤنڈیشن نامی رفاہی تنظیم سینکڑوں مقامی غریب خاندانوں کو ہر مہینے مالی امداد بھی مہیا کرتی ہے۔ ان دونوں عوامل کی وجہ سے انہوں نے اس حلقے میں اپنا قابلِ ذکر سیاسی رسوخ بنا لیا ہے جس کا فائدہ، ان مقامی ووٹروں کے مطابق، اس بار پاکستان مسلم لیگ نواز کو ہو گا۔ 

لیکن پاکستان تحریک انصاف کے مقامی کارکن سمجھتے ہیں کہ عبدالعلیم خان کا ذاتی اثرورسوخ اتنا زیادہ نہیں کہ وہ انتخابات کے نتیجے پر اثرانداز ہو سکیں۔ اس کے برعکس وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کو ایسی "بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے کہ اسے عبدالعلیم خان جیسے منحرف سیاستدان کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"۔

ان کارکنوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کی جماعت کے امیدوار، میاں اکرم عثمان، اچھرہ کے ذیلدار خاندان کے فرد ہونے کی بنا پر اس حلقے میں اپنا ذاتی اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں جس کے باعث ان کی جماعت کے ووٹوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اس خاندان کے مختلف افراد ہمیشہ اس حلقے کی سیاست میں سرگرم رہے ہیں جن میں سرِفہرست میاں اکرم عثمان کے والد میاں محمد عثمان ہیں۔ 

لیکن اسی خاندان کے ایک اور فرد، سابق رکن صوبائی اسمبلی میاں محمد نعمان،  پاکستان مسلم لیگ نواز سے وابستہ ہیں اور اس کے امیدوار کی انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے حصہ لے رہے ہیں۔ مقامی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ ذیلدار خاندان کی انتخابی حمایت کو تقسیم کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ 

مذہبی اور لسانی عوامل

عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار زاہد خان حسن زئی بھی پی پی-158کے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں حالانکہ ان کی جماعت وفاقی حکومت میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی اتحادی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے "انتخاب میں حصہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ ضمنی انتخاب کے لیے کیے جانے والے فیصلوں میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے عوامی نیشنل پارٹی سے مشاورت نہیں کی"۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اس حلقے میں رہنے والے پختون ووٹر ان کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں جس کا انتخابی نتیجے پر واضح اثر پڑے گا۔ 

تاہم ان ووٹروں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ووٹر لسٹوں میں لسانی شناخت کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح انتخابی میدان میں زاہد خان حسن زئی کی موجودگی سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکالا جا سکتا کہ اس کا نقصان ان کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کو ہی ہو گا کیونکہ پچھلے دو انتخابات میں ملک بھر میں پختوں ووٹروں نے بالعموم پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دیا ہے۔ اس لیے ضمنی انتخاب میں ایک پختون امیدوار کی موجودگی کا اس جماعت کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ 

زاہد خان حسن زئی کے علاوہ پی پی-158 میں ایک اور اہم امیدوار تحریک لبیک پاکستان کے محمد بلال شیخ ہیں جو اپنی جماعت کے روایتی مذہبی نعروں کے ذریعے اپنے حمایتیوں کو گرمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت وسطی پنجاب کے بہت سے دیگر حلقوں کی طرح اس حلقے میں بھی تیسرے نمبر پر آئی تھی اور اس کے امیدوار، اظہراقبال، نے چھ ہزار سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔ یہ ووٹ پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی شکست کی ایک وجہ ضرور رہے ہوں گے کیونکہ اس حلقے میں موجود سنی بریلوی مدرسوں اور درگاہوں سے منسلک ووٹر سابقہ انتخابات میں اسے ہی ووٹ دیتے رہے ہیں۔

اس دفعہ تحریک لبیک پاکستان انتخابی نتائج پر کس طرح اثرانداز ہوگی اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس کے ووٹروں کی تعداد میں کوئی بڑا اضافہ یا کوئی شدید کمی دیکھنے میں نہیں آئے گی۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.