مرید پور کے پیر: 'جن لوگوں کے ہاتھ ہمیشہ دوسروں نے چومے ہوں وہ کسی کے پاؤں پڑ کر کیسے ووٹ مانگیں گے'۔

آصف ریاض

تاریخ اشاعت 7 ستمبر 2022

پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-139 میں واقع اور امرودوں کے باغات میں گھرے محمود کوٹ نامی گاؤں میں ستمبر 2022 کے پہلے ہفتے میں غیر معمولی گہما گہمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے مقامی کارکن اس حلقے میں اگلے ماہ کی 16 تاریخ کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے سلسلے میں ایک جلسے کا انتظام کر رہے ہیں جبکہ گلیوں محلوں میں جگہ جگہ انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینر لگے ہوئے ہیں۔ 

یہ حلقہ وسطی پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کا حصہ ہے۔ اس میں محمد پورہ ڈھامکے نامی پٹوار سرکل کے سوا شرق پور تحصیل کے تمام علاقے شامل ہیں جہاں، تازہ ترین مردم شماری کے مطابق، تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار لوگ رہتے ہیں۔ اس حلقے کا دوسرا حصہ شیخوپورہ تحصیل کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے جن کی مجموعی آبادی دو لاکھ سات ہزار ہے۔ 

حکومتِ پنجاب کے پلاننگ اینڈ ڈویلمپنٹ بورڈ کی جانب سے 2020 میں زرعی اراضی کی تقسیم اور اس کے استعمال کے حوالے سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق تحصیل شرق پور میں ارائیں اور تحصیل شیخوپورہ میں جٹ برادری کی اکثریت ہے جب کہ دونوں تحصیلوں میں مغل، رحمانی، راجپوت، بلوچ، اعوان اور گجر برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔ پی پی-139 میں 18 ہزار سے زائد غیر مسلم بھی آباد ہیں جن میں سے اکثر مسیحی ہیں۔

اس حلقے سے 2018 کے عام انتخابات میں ارائیں برادری سے تعلق رکھنے والے میاں جلیل احمد نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن جولائی 2022 میں انہوں نے اس جماعت کی قیادت سے اختلاف کے باعث صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے اسی استعفے کی وجہ سے اب یہاں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ 

اگرچہ میاں جلیل احمد پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہو چکے ہیں لیکن وہ ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لے رہے۔ ان کے بجائے ان کے قریبی عزیز میاں ابوبکر پی پی-139 میں اس جماعت کے انتخابی امیدوار ہیں۔

شرقپور کی ایک مرکزی سڑکشرقپور کی ایک مرکزی سڑک

چونکہ کوٹ محمود کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد ارائیں برادری سے تعلق رکھتی ہے اس لیے میاں ابوبکر کو توقع ہے کہ یہاں کے ووٹروں کی اکثریت انہی کو ووٹ دے گی۔ لیکن گاؤں میں لگے مختلف جماعتوں کے جھنڈوں اور امیدواروں کے بینروں اور پوسٹروں سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کتنے مقامی لوگ کس امیدوار کو ووٹ دیں گے۔

اس کے بجائے دو معمر مقامی افراد کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی ووٹر اس دفعہ ذات برادری سے بالا ہو کر ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے محمد بشیر نامی بزرگ کے مطابق "اب زمانہ تبدیل ہو چکا ہے اس لیے لوگ نہ تو برادری کے دباؤ میں آئیں گے اور نہ ہی کسی چوہدری کے کہنے پر ووٹ دیں گے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "اس گاؤں کے لوگوں نے ذات برادری اور مقامی گروہ بندیوں کی بنیاد پر ووٹ دینے کے نتائج بھگت لیے ہیں" کیونکہ، ان کے بقول، انہیں اس سے کوئی انفرادی یا اجتماعی فائدہ نہیں ہوا۔ 

ایک قریبی گاؤں ایحیٰ پور کے سابق کونسلر میاں اشفاق احمد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ "ذات برادری اور گروہ بندی کی سیاست اب ماند پڑتی جا رہی ہے"۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے لیے مقامی لوگوں سے ہر روز ووٹ مانگتے ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ "ووٹر اب سوال کرتے ہیں"۔

تاہم میاں ابوبکر کی انتخابی مہم کے کنوینر اظہر اقبال چٹھہ کا کہنا ہے کہ "اس تبدیلی کا سہرا بھی عمران خان کے سر ہے"۔ ان کے مطابق "اگر اس بار لوگ ذات برادری اور گروہ بندی سے ہٹ کر نظریات اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے کا سوچ رہے ہیں" تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جماعت کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ اس کی ساری سیاست کا محور یہی دو عناصر ہی تو ہیں۔ 

'عقیدہ نہیں ملک بچانا ہے'

میاں جلیل احمد اور میاں ابوبکر کا تعلق میاں شیر محمد شرقپوری کے خاندان سے ہے جو انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں وسطی پنجاب میں ایک ممتاز مذہبی اور روحانی شخصیت مانے جاتے تھے۔ ان کے نسل در نسل چلنے والے مرید ہزاروں کی تعداد میں شرقپور نامی قصبے اور پی پی-139 کے درجنوں دیہات میں رہتے ہیں۔ 

ان دیہات میں ایحیٰ پور بھی شامل ہے۔

 پاکستاں مسلم لیگ نواز کے امیدوار افتخار احمد بھنگو کے دفتر کا بیرونی منظر پاکستاں مسلم لیگ نواز کے امیدوار افتخار احمد بھنگو کے دفتر کا بیرونی منظر

2 ستمبر 2022 کو کچھ نوجوان یہاں کی ایک دکان کے سامنے کھڑے ہو کر ضمنی انتخابات کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔ ان میں سے 24 سالہ مطلوب احمد میاں ابوبکر کو اپنا پیر سمجھتے ہیں اس لیے وہ انہی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی پی-139 میں بڑی تعداد میں لوگ میاں ابوبکر اور ان کے خاندان کے مرید ہیں جو "کسی اور کو ووٹ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے"۔

کچھ دوسرے نوجوان بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن وہیں پر موجود لگ بھگ 45 سال کا ایک شخص اپنی بھاری بھر کم آواز میں سوال کرتا ہے کہ اگر "اگر پیر صاحب دوزخ میں کودنے کا کہیں گے تو کیا کود جاؤ گے"۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے "انہی پیر صاحب کا خاندان 2018 کے انتخابات میں عمران خان کے نظریات اور شخصیت پر شدید تنقید کر رہا تھا لیکن اب اسی کی تعریف کے پُل باندھے جا رہے ہیں"۔ 

ایحیٰ پور سے ایک کلومیٹر مغرب میں واقع ککڑاں والا نامی بستی کے رہنے والے 40 خاندانوں میں سے بیشتر بھی میاں ابوبکر کے مرید ہیں۔ لیکن یہاں کے 70 سالہ باشندے محمد اسلم اس بار اپنے پیر کو ووٹ نہیں دینا چاہتے کیونکہ، ان کے مطابق، "اس وقت عقیدہ بچانے سے زیادہ ضروری ملک بچانا ہے"۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جس کی ذمہ داری کسی حد تک ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو (میاں جلیل احمد کی طرح) سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کے لیے اسمبلیوں سے استعفے دے رہے ہیں"۔

ووٹ برادری کا یا جماعت کا؟

پاکستان مسلم لیگ نواز 2002 کے عام انتخابات میں پورے پاکستان سے قومی اسمبلی کی صرف 13 نشستیں جیت پائی تھی۔ ان میں سے ایک میاں جلیل احمد نے جیتی تھی۔ انہوں نے میاں محمد اظہر کو شکست دی تھی جو اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی حمایت یافتہ جماعت پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے سربراہ تھے۔ 

ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت تھی کہ ان کے پاس ایک مضبوط خاندانی ووٹ بنک موجود ہے جس کے بل بوتے پر انہوں نے 2005 میں بالآخر پاکستان مسلم لیگ نواز کو بھی چھوڑ دیا اور پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کے پلیٹ فارم سے شیخوپورہ کے ضلع ناظم بن گئے۔ اسی دوران میاں ابوبکر کے بھائی میاں مرغوب احمد بھی شرقپور کے تحصیل ناظم منتخب ہو گئے۔ 

تاہم  2008 کے عام انتخابات میں ان کے خاندان کو پہلی بار اپنے ووٹ بنک کی کمزوری کا احساس ہوا جب میاں جلیل احمد کے قریبی عزیز میاں ولید احمد قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں کے انتخاب میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے بری طرح ہار گئے۔ ان انتخابات کے بعد پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت آئی تو اُس نے میاں جلیل احمد کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر ان کی جگہ ملک رحمت علی ڈوگر کو شیخوپورہ کا ضلع ناظم بنا دیا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار میاں ابوبکر کی انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے ملاقاتپاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار میاں ابوبکر کی انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے ملاقات

اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے میاں جلیل احمد نے اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے ملاقات کر کے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان بھی کیا لیکن وہ وہاں رکے نہیں بلکہ دسمبر 2011 میں انہوں نے پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے ایک ہی سال بعد وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔

تاہم جب پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں انہیں اپنا انتخابی امیدوار نامزد نہ کیا تو وہ آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑے اور ہار گئے۔ ان کے بھائی میاں سعید احمد اُن انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے (حالانکہ 1993 اور 1997 میں اسی جماعت کے امیدوار کے طور پر وہ دو بار صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیت چکے ہیں)۔ 

پچھلے عام انتخابات سے پہلے میاں جلیل احمد ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ نواز میں آ گئے اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیت گئے۔ انہوں نے 31 ہزار 10 ووٹ لیے جب کہ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے جہانزیب راؤ نے 27 ہزار ایک سو 53 ووٹ حاصل کیے۔ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار چوہدری عبدالرؤف تیسرے نمبر پر آئے۔ انہوں نے 17 ہزار آٹھ سو 67 ووٹ لیے۔ ضمنی انتخاب میں بھی وہ اپنی جماعت کے امیدوار کے طور پر خاصے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ 

نواز بمقابلہ عمران

پاکستان مسلم لیگ نواز نے 16 اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں افتخار احمد بھنگو کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔ ان کا تعلق جٹ برادری سے ہے اور وہ 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں (لیکن 1993 اور 1997 میں وہ میاں سعید احمد  کے ہاتھوں ہار گئے تھے)۔ 

ان تین انتخابات کے بعد انہوں نے کافی عرصہ خود تو انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیا لیکن ان کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد آزاد امیدوار کے طور پر ہمیشہ اس میں موجود رہا ہے۔ 2013 میں ان کے بیٹے بلال افتخار بھنگو نے پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے قسمت آزمائی کی اور سات ہزار تین سو نو ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے۔ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا لیکن وہ سو ووٹ بھی حاصل نہیں کر پائے۔ 

افتخار احمد بھنگو کے ڈیرے کا منظرافتخار احمد بھنگو کے ڈیرے کا منظر

اس کے باوجود افضل علی ورک کہتے ہیں کہ اس دفعہ افتخار احمد بھنگو ایک مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ، ان کے مطابق، یہ حلقہ ہمیشہ پاکستان مسلم لیگ نواز کا گڑھ رہا ہے۔ اپنی بات کے ثبوت کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ "میاں جلیل احمد یا ان کے خاندان کے دوسرے افراد نے ہمیشہ اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے برعکس وہ جب بھی آزاد حیثیت سے انتخابی میدان میں اترے ہیں انہیں شکست ہی ہوئی ہے"۔

افضل علی ورک نے 2018 کے عام انتخابات میں پی پی-139 سے آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا۔ 16 اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے لیے وہ پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ کے امیدوار بھی تھے لیکن اب وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جماعت کی مقامی سیاسی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پی پی-139 قومی اسمبلی کے جس حلقے، این اے-120، میں شامل ہے وہاں سے پچھلے تین انتخابات میں اسی سے تعلق رکھنے والے رانا تنویر حسین بھاری اکثریت سے منتخب ہوتے آئے ہیں۔ 

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ رانا تنویر حسین ضمنی انتخاب میں اپنی جماعت کے امیدوار کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے گاؤں گاؤں اور گھر گھر جا کر ووٹ بھی مانگ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایسا کرنے پر انہیں 30 اگست 2022 کو 50 ہزار روپے جرمانہ بھی کیا ہے کیونکہ اس کا ضابطہ اخلاق قومی اسمبلی کے کسی رکن کو ضمنی انتخاب میں ووٹ مانگنے کی اجازت نہیں دیتا۔  

دوسری طرف میاں ابوبکر اتنے متحرک نظر نہیں آتے۔ سابق کونسلر میاں اشفاق احمد ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ "جن لوگوں کے ہاتھ ہمیشہ دوسروں نے چومے ہوں وہ کیسے کسی کے پاؤں پڑ کر ووٹ مانگیں گے"۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ میاں ابوبکر کو ایک سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے کچھ حامیوں کو یہ فکر بھی ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت کے قومی اسمبلی کے امیدوار، علی اصغر منڈا، جو رانا تنویر حسین کے مقابل دوسرے نمبر پر آئے تھے، ضمنی انتخاب میں پوری طرح متحرک نہیں۔ انہیں مبینہ طور پر یہ خطرہ لاحق ہے کہ اس انتخاب میں میاں ابوبکر کی کامیابی کے باعث اگلے عام انتخابات میں کہیں میاں جلیل احمد ہی پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے امیدوار نامزد نہ ہو جائیں۔ 

تاہم اظہر اقبال چٹھہ ان تمام عوامل کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں ابوبکر کو پی پی-139 میں واضح برتری حاصل ہے کیونکہ "تین طرح کے مقامی ووٹر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ "پہلے وہ جو عمران خان کی شخصیت کو پسند کرتے ہیں، دوسرے وہ جو پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی نظریے کو پسند کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو شرقپوری خاندان سے عقیدت رکھتے ہیں"۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.