'اندرونی اختلافات اور آزردہ حامیوں کے باعث ایم کیو ایم کراچی میں انتخابی حمایت کھو رہی ہے'۔

مقبول احمد

تاریخ اشاعت 19 اگست 2022

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی سربراہ الطاف حسین نے 21 اگست 2016 کو اپنے حامیوں کے اجتماع سے ٹیلی فون پر ایک ایسا خطاب کیا جو ان کی سیاست کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ انہوں نے جن لوگوں کے سامنے یہ تقریر کی انہوں نے ان کی جماعت کے چند ارکان کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف بطور احتجاج کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کو ''کینسر''، ''پوری دنیا کے لیے دردِ سر'' اور ''دہشت گردی کا منبع'' قرار دیا تھا۔ 

ان کی اس پاکستان مخالف تقریر کے ٹھیک چھ سال بعد کراچی کے حلقے این اے۔245 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے امیدوار اس کے تباہ کن سیاسی مضمرات سے نبردآزما ہیں۔ کراچی کے اس حلقے میں یہ انتخاب 21 اگست 2022 کو ہونا ہے جس میں اس جماعت کو اپنے مایوس حامیوں، آزردہ ووٹروں اور اپنے ہی دو سابق ارکان سمیت کئی مضبوط انتخابی مخالفین کا سامنا ہے۔

ان حالات میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ایم کیو ایم یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے گی کہ وہ اپنے بانی کے ''منحوس'' سائے سے نکل آئی ہے اور اسے ایک ایسے انتخابی حلقے میں اب بھی لوگوں کی غیرمتزلزل حمایت حاصل ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ اردو بولنے والے مہاجروں پر مشتمل ہے؟ یقیناً اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ این اے۔245 کی حالیہ انتخابی تاریخ اور یہاں کی آبادی کی نسلی ترکیب دو ایسے عناصر ہیں جنہیں مدنظر رکھا جائے تو یہ حلقہ ایک پیچیدہ سیاسی اور انتخابی تصویر پیش کرتا ہے۔ 

قومی اسمبلی کی یہ نشست جون 2022 میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی وفات کے باعث خالی ہوئی جنہوں نے یہاں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ایم کیو ایم کے رکن کی حیثیت سے کیا تھا اور 2002 کے انتخابات میں کراچی سے ہی قومی اسمبلی کی نشست جیت کر جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر مملکت بنے تھے۔ ٹیلی ویژن پر اپنے مذہبی پروگراموں کی بھرپور مقبولیت کی بدولت بعدازاں وہ شوبز کے میدان میں نمایاں ہوئے اور 2018 کے عام انتخابات سے چند مہینے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شامل ہو گئے۔ 

اُس انتخاب میں ان کے سب سے بڑے حریف ڈاکٹر فاروق ستار تھے جنہیں کبھی ایم کیو ایم میں الطاف حسین کے بعد اہم ترین شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ 2018 میں وہ ایم کیو ایم ہی کے امیدوار تھے لیکن انہیں اپنی جماعت کی مکمل حمایت حاصل نہیں تھی۔ انتخابات سے محض چند روز پہلے اس کا کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل کر خالد مقبول صدیقی کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا جو ایم کیو ایم کے دیرینہ وفادار سمجھے جاتے ہیں لیکن کبھی فاروق ستار کی طرح مشہور نہیں رہے۔ 

پارٹی کی سربراہی کے لیے یہ جھگڑا ہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے سبب فاروق ستار ایک ایسے حلقے میں 20 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے ہار گئے جہاں ایم کیو ایم ماضی میں باآسانی کامیابی حاصل کرتی رہی تھی۔ خالد مقبول صدیقی کے ساتھ ان کے اختلافات کا نتیجہ ایم کیو ایم کی دو دھڑوں میں تقسیم کی صورت میں بھی برآمد ہوا۔ تاہم وقت کے ساتھ فاروق ستار اس جماعت میں اس قدر غیر اہم بنا دیے گئے ہیں کہ اب وہ ضمنی انتخاب میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔ اس کے باوجود انتخابی میدان میں ان کی موجودگی سے ایم کیو ایم کو اب بھی بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 

این اے- 245 میں لگے ہوئے انتخابی بینراین اے- 245 میں لگے ہوئے انتخابی بینر

اس حلقے کا دوسرا پیچیدہ عنصر یعنی یہاں موجود مختلف نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والی آبادی بھی اس مرتبہ ایم کیو ایم کی انتخابی قسمت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے وکیل اور انتخابات سے متعلق کئی مقدمات لڑنے کا تجربہ رکھنے والے عثمان فاروق کہتے ہیں کہ 2013 کے انتخابات تک یہاں اردو بولنے والے ووٹروں کی واضح اکثریت تھی۔ تاہم بعد میں ہونے والی حلقہ بندی میں اردو بولنے والی آبادی پر مشتمل بعض علاقے اس حلقے سے خارج کر کے ان کی جگہ ایسے علاقے اس میں شامل کر دیے گئے جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ پنجابی اور پختون ووٹروں پر مشتمل ہے۔ 

اس صورت حال کا پی ٹی آئی کو یقیناً فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ یہ جو حالیہ سالوں میں کراچی کے بیشتر غیرمہاجر ووٹروں کی حمایت لینے میں کامیاب رہی ہے۔ 

اندرونی اور بیرونی چیلنج

کراچی میں ایم کیو ایم کے قلعے میں دراڑ پڑنے کے آثار الطاف حسین کی متذکرہ بالا تقریر سے کہیں پہلے 2013 میں ہی واضح ہو گئے تھے۔ اگرچہ اُس سال ہونے والے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی میں موجود قومی اسمبلی کی 20 میں سے 17 نشستیں جیت لی تھیں لیکن یہ پہلا موقع تھا جب اسے پی ٹی آئی کی صورت میں ایک ایسی سیاسی قوت کا سامنا ہوا جو شہر کے ہر حلقے سے ووٹ لے سکتی تھی۔ 

جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) جیسے حریفوں کے برعکس، جنہیں کراچی میں مخصوص علاقوں میں ہی رائے دہندگان کی نمایاں حمایت حاصل ہے، پی ٹی آئی نے یہ ثابت کر دیا کہ نسلی اور نظریاتی بنیادوں پر شدت سے منقسم اس شہر میں اسے ہر جگہ حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ اس انتخاب میں پی ٹی آئی ایک ہی نشست جیت پائی لیکن قومی اسمبلی کی 17 نشستوں پر اس کے امیدواروں نے جیتنے والے امیدواروں کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ انہی میں سے ایک امیدوار سبحان علی ساحل کو کراچی غربی میں پانچ ہزار سے بھی کم ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ 

2013 کے آس پاس ایم کیو ایم کا اندرونی نفاق بھی واضح ہونا شروع ہو گیا تھا کیونکہ اسی سال کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال نے سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے کر پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ مارچ 2016 میں وہ واپس آئے اور ایم کیو ایم کے ایسے بہت سے ارکان کو ساتھ ملا کر پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) قائم کی جو لندن میں رہنے والے الطاف حسین کے اندازِ قیادت سے خوش نہیں تھے۔ 

باالفاظ دیگر، ایم کیو ایم نے جب 2018 کے انتخابات میں حصہ لیا تو ماضی کے مقابلے میں اس کی سیاسی قوت بہت کمزور پڑ چکی تھی۔ اس کے باوجود ان انتخابات میں اس کی ناقص کارکردگی نے اس کے ہمدردوں کو پریشان نہیں تو حیران ضرور کیا کیونکہ وہ کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 میں سے صرف چار نشستیں جیت سکی اور بہت سی ایسی جگہوں پر اس کے امیداور دوسری پوزیشن بھی نہ لے سکے جو کبھی اس کا مضبوط گڑھ سمجھی جاتی تھیں۔ ایسی بہت سی جگہوں پر دوسری پوزیشن تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے حاصل کی جسے توہین مذہب کے خلاف اپنے جارحانہ مذہبی بیانیے کی بنیاد پر محنت کش شہری طبقے میں بھرپور حمایت ملی۔

جہانگیر روڈ این اے- 245 سے گزرنے والی ایک اہم سڑک ہے  جہانگیر روڈ این اے- 245 سے گزرنے والی ایک اہم سڑک ہے  

این اے۔245 میں ایم کیو ایم کے امیدوار معید انور کو انتخابات کے موقع پر مندرجہ بالا تمام مسائل کا سامنا ہو گا۔ مثال کے طور پر ان کے بعض سابق ساتھی بھی ان کے مقابلے میں انتخاب لڑ رہے ہیں جن میں حفیظ الدین بھی شامل ہیں جو مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ مذہبی ووٹروں کا جھکاؤ بھی ابھی تک بظاہر ٹی ایل پی کی جانب ہی ہے اور حلقے میں بہت سی جگہوں پر اردو بولنے والے ووٹر بھی معید انور کی جماعت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ انہوں نے ماضی میں ہر مرتبہ ایم کیو ایم کو ووٹ دیا لیکن وہ 1988 سے لے کر اب تک بہت سی حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوجود ان کے حالات بہتر نہیں بنا سکی۔

معید انور، جو ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (شرقی) کے منتخب چیئرمین رہے ہیں، تسلیم کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کراچی کے لوگوں کو درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن وہ اس کا ذمہ دار پاکستان پیپلزپارٹی کو قرار دیتے ہیں جو 2008 سے سندھ پر حکومت کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''شہر کے مسائل ایک بااختیار مقامی حکومت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں لیکن صوبے کی حکمران جماعت اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نظر ہی نہیں آتی''۔ 

تاہم جمعیت علماء اسلام (فضل) کی طرح پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی این اے۔245 میں اپنا امیدوار معید انور کے حق میں دستبردار کروا لیا ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں مرکز میں قائم مخلوط حکومت میں ایم کیو ایم کی شراکت دار ہیں۔ لیکن ان دونوں کو اس حلقے میں ووٹروں کی خاص تعداد کی حمایت حاصل نہیں ہے اس لیے ان کی غیرموجودگی سے ایم کیو ایم کو کوئی بڑا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ 

اس صورتحال میں فاروق ستار ایک ایسے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں جو کوئی غیرمتوقع نتیجہ حاصل کر سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر وہ مارٹن کوارٹرز، جمشید کوارٹرز اور کلیٹن کوارٹرز جیسے اردو بولنے والوں کی اکثریت کے علاقوں میں ایم کیو ایم کے آزردہ ووٹر کو اپنے ساتھ ملا لیں تو ضمنی انتخاب میں اچھے نتائج دے سکتے ہیں۔ وہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے 1950 سے یہاں مقیم خاندانوں کی اپنے گھروں سے بے دخلی روکنے کے لیے بے دھڑک کام کیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ متعدد چھوٹی سیاسی پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد ہے جو دیہی سندھ کے کچھ علاقوں میں سیاسی اثر تو ضرور رکھتا ہے لیکن کراچی کی انتخابی سیاست میں اس کی کوئی قابل ذکر نمائندگی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح وہ جماعت اسلامی اور سنی تحریک سے بھی اپنے لیے حمایت مانگ رہے ہیں کیونکہ ان دونوں مذہبی جماعتوں نے ضمنی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ''مجھے امید ہے کہ سنی تحریک میری حمایت کرے گی جبکہ میرے ساتھی کراچی میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے بھی بات چیت کر رہے ہیں جن کے پاس اس حلقے میں کم از کم 18 ہزار پکے ووٹر موجود ہیں''۔  

تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار محمد احمد رضا اگرچہ خود نہیں جیت سکتے لیکن وہ بھی ایم کیو ایم کو انتخابی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے اِسی حلقے سے اِسی جماعت کے ٹکٹ پر 20 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ انہیں امید ہے کہ اس دفعہ وہ عدیم النظیر مہنگائی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان نچلے درجے کے شہری طبقے میں اس سے کہیں زیادہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جتنی کہ انہیں چار سال پہلے ملی تھی۔ پولنگ والے دن ووٹروں کے زیادہ تعداد میں باہر نہ آنے کی صورت میں بھی وہ ایک مزید مضبوط امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں جیسا کہ ٹی ایل پی کے ایک امیدوار نے کراچی کے ضلع کورنگی میں حالیہ ضمنی انتخاب میں ثابت کیا جہاں وہ صرف 65 ووٹوں کے فرق سے ہارے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے امیدوار محمود باقی مولوی پراعتماد ہیں کہ کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ''گزشتہ عام انتخابات میں اس حلقے کے لوگوں نے پی ٹی آئی کے امیدار کے حق میں ووٹ دیا تھا اور وہ اب بھی اسی جماعت سے محبت کرتے ہیں۔ اصل میں وہ عمران خان کی جماعت کے دیوانے ہیں''۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایک ''غیرجانبدار سروے'' کے مطابق این اے۔245 میں ہر دس میں سے آٹھ ووٹروں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ 

تاہم ایسے ''غیرجانبدارانہ جائزے'' حالیہ سالوں میں پاکستان کے دیگر حصوں میں غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ اگر عمران خان کی وفاقی حکومت کی جانب سے اپنے تین سالہ دور اقتدار میں کراچی کے کسی بھی شہری مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی اور اس کی معاشی پالیسیوں سے نچلے شہری طبقے کو ہونے والے نقصان کو خاص طور پر مدنظر رکھا جائے تو  یہ کہا جا سکتا ہے کہ این اے۔ 245 کے ووٹر بھی اس حوالے سے کوئی غیرمتوقع نتیجہ دے سکتے ہیں۔

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے: 'ہر حکومت سرکاری کوارٹروں کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق دینے میں ناکام رہی ہے'۔

مقبول احمد

تاریخ اشاعت 18 اگست 2022

رضی الدین کو ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں وہ اپنے گھر سے ہمیشہ کے لیے محروم نہ ہو جائیں۔ 

وہ کراچی کے ضلع شرقی کے ایک خستہ حال علاقے مارٹن کوارٹرز میں رہتے ہیں جو 1950 کی دہائی میں وفاقی حکومت نے اپنے ملازمین کے لیے بنائے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1970 کے بعد تقریباً ہر وفاقی حکومت نے ان کے خاندان کو اس گھر سے بے دخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ پچھلے تین سال میں انہیں اور مارٹن کوارٹرز میں رہنے والے دیگر ہزاروں لوگوں کو کوئی ایسا نوٹس نہیں ملا کہ انہیں یہاں سے نکال دیا جائے گا تاہم گھر چھن جانے کا خوف انہیں ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ 

حکومت کا موقف ہے کہ یہ کوارٹر اس نے صرف حاضر سروس ملازمین کے لیے بنائے تھے اور یہ کہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ بعد میں یہ گھر ان کے بچوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ اسی لیے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اب ان ملازمین کے بچوں کا ان گھروں میں رہنا غیرقانونی ہے۔

دوسری جانب 32 سالہ رضی الدین کا استدلال ہے کہ ان گھروں میں رہنے والے لوگوں کے باپ دادا نے سالہا سال تک پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کی بے لوث خدمت کی ہے۔ لہٰذا ان کی اولاد کو اپنے اجداد کی کڑی محنت کا صلہ ملنا چاہیے۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے والد نے 45 سال پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن میں ایک کلرک کے طور پر ایک قلیل تنخواہ پر نوکری کی جس میں ان کے لیے اپنا گھر خریدنا ممکن ہی نہیں تھا۔ وہ شکایت کرتے ہیں کہ ان خدمات کا صلہ دینے کے بجائے حکومت اب ان کے رہنے کا واحد ٹھکانہ بھی چھین لینا چاہتی ہے۔ 

مارٹن کوارٹرز وفاقی حکومت کی تعمیر کردہ ایسی رہائشی عمارتوں کا حصہ ہیں جن میں کلیٹن کوارٹرز اور جمشید کوارٹرز بھی شامل ہیں۔ شروع میں ان آبادیوں میں ہر گھر دو کمروں اور ایک صحن پر مشتمل ہوا کرتا تھا تاہم بعد میں ان کے باسیوں نے ان میں مزید کمروں کا اضافہ کر لیا جن پر عام طور پر سیمنٹ کی تیار چھتیں ڈالی گئی ہیں۔ بعض لوگوں نے اپنے گھروں میں مزید منزلیں بھی تعمیر کر لیں جبکہ جہانگیر روڈ، جمشید روڈ اور بزنس ریکارڈر روڈ پر واقع ایسے بعض گھروں کے سامنے کے حصوں کو لوگوں نے دکانوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ 

مارٹن کوارٹرز کی ایک گلیمارٹن کوارٹرز کی ایک گلی

اس طرح یہاں خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں گھری گنجان گلیوں اور سڑکوں کا ایک جال سا بن گیا ہے۔

جس علاقے میں یہ سرکاری کوارٹر واقع ہیں وہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے۔245 کا حصہ ہے جہاں 21 اگست 2022 کو ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ نشست ٹیلی ویژن کے معروف میزبان عامر لیاقت حسین کی وفات کے نتیجے میں خالی ہوئی ہے جو 2018 کے عام انتخابات میں یہاں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ 

چونکہ ان کوارٹروں میں تقریباً ایک لاکھ لوگ (یعنی این اے۔245 کی تمام آبادی کا تقریباً ساتواں حصہ) رہتے ہیں اس لیے ان کے ووٹوں کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ پچھلے عام انتخابات میں چار امیدواروں نے اس حلقے سے 20 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے اس لیے اگر اب بھی یہاں کے رائے دہندگان اسی طرح منقسم رہتے ہیں تو سرکاری گھروں میں رہنے والے رضی الدین اور دیگر رہائشی ایک ہی امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کر کے ضمنی انتخاب کے نتیجے پر باآسانی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ 

غالباً ان لوگوں کی اسی سیاسی اہمیت کی بنا پر متعدد سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما رضی الدین کے بقول کئی دہائیوں سے ان کے ساتھ یہ وعدہ کرتے چلے آئے ہیں کہ وہ انہیں اپنے گھروں کے مالکانہ حقوق دلوائیں گے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے تاحال عملی طور پر ان کے لیےکچھ نہیں کیا۔ 

اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو ووٹ دیں گے کیونکہ ''یہ جماعت کم از کم ہمارے مسائل کے بارے میں آواز تو اٹھاتی ہے''۔ درحقیقت ایم کیو ایم بالکل انہی جیسے لوگوں کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے یعنی جو اُن مہاجرین کی دوسری اور تیسری نسل ہیں جو تقسیم برصغیر کے موقع پر اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہندوستان سے پاکستان آ گئے تھے۔ نتیجتاً 1988 سے لے کر 2013 تک ہونے والے تمام انتخابات میں ان لوگوں کی بڑی اکثریت ایم کو ایم کو ووٹ دیتی رہی ہے۔ 

این اے۔245 کی انتخابی تاریخ بھی ایسی ہی ہے کیونکہ سات لاکھ 44 ہزار چار سو 75 افراد پر مشتمل اس حلقے کی آبادی کا بڑا حصہ اردو بولنے والے مہاجرین کی اولاد کہلاتا ہے۔ 

تاہم گزشتہ عام انتخابات کے دوران ایسے لوگوں میں ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کے رحجان میں کمی دیکھی گئی۔ عامر لیاقت حسین نے، جو 2018 کے آغاز میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے خود بھی ایم کیو ایم ہی کے نمایاں رہنماؤں میں شامل تھے، گزشتہ عام انتخابات میں اس حلقے میں 56 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے اور ایم کیو ایم ہی سے تعلق رکھنے والے اپنے حریف کو 20 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اُن انتخابات میں این اے۔245 کے رہائشیوں نے عمومی طور پر اور کوارٹروں میں رہنے والے لوگوں نے خاص طور پر پہلے کی طرح ایم کیو ایم کی بھرپور انتخابی حمایت نہیں کی۔

 حلقہ این اے- 245 کی گلی میں کچرے کا ڈھیر  حلقہ این اے- 245 کی گلی میں کچرے کا ڈھیر 

اگر رضی الدین کا ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کا وعدہ پیش نظر رکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ جماعت ان لوگوں میں اپنی کھوئی ہوئی حمایت دوبارہ بحال کر سکتی ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے انہیں اس حقیقت کو نظرانداز کرنا ہو گا کہ ایم کیو ایم 1988 کے بعد اب تک بہت سے حکمران اتحادوں کا حصہ ہوتے ہوئے بھی یہاں کے لوگوں کو ان کے گھروں کےمالکانہ حقوق لے کر دینے کا مطالبہ پورا نہیں کر سکی۔

ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور حالیہ ضمنی انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے والے ڈاکٹر فاروق ستار تسلیم کرتے ہیں کہ ''ایک کے بعد دوسری حکومت مارٹن کوارٹرز، جمشید کوارٹرز اور کلیٹن کوارٹرز کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق دینے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ''میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ میں انہیں ان کے گھروں سے بے دخل ہونے نہیں دوں گا''۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیسے چند سال پہلے انہوں نے یہاں کے لوگوں سے گھر خالی کرائے جانے کی سرکاری کارروائی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سامنا بھی کیا تھا۔ 

سیاسی وابستگی بمقابلہ شہری مسائل

این اے۔245 ایک وسیع حلقہ ہے جو یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح روڈ اور شاہراہِ فیصل جیسی کراچی کی بہت سی بڑی سڑکوں کے ارد گرد پھیلا ہوا ہے۔ قائداعظم کا مقبرہ، چڑیا گھر اور سنٹرل جیل جیسی نمایاں جگہیں بھی اسی کی حدود میں واقع ہیں۔ 

یہ حلقہ زیادہ تر زیریں متوسط اور محنت کش طبقوں کی آبادیوں پر مشتمل ہے جن میں پی آئی بی کالونی، مارٹن کوارٹرز، کلیٹن کوارٹرز، جمشید کوارٹرز، لسبیلہ چورنگی، گارڈن ایسٹ، عیسٰی نگری، خداداد کالونی اور لائنز ایریا نمایاں ہیں۔ تاہم اس حلقے کی کچھ آبادی سندھی مسلم کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی، نرسری، پی ای سی ایچ ایس بلاک 2 اور بلاک 6، پارسی کالونی اور فاطمہ جناح کالونی جیسے مقابلتاً امیر علاقوں میں بھی رہتی ہے۔ 

وفاقی حکومت کے کوارٹروں میں رہنے والے لوگوں کے مطالبات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو گندے پانی کی نکاسی اس حلقے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو اس کی مصروف ترین سڑک جہانگیر روڈ پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ اس پر ہر وقت سیوریج کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ قائداعظم کے مقبرے کے قریب واقع گرومندر کے علاقے سے لے کر لیاری ایکسپریس وے سے ملحقہ علاقے تین ہٹی تک جانے والی یہ 1.7 کلومیٹر لمبی سڑک کام اور کاروبار کی غرض سے ضلع شرقی سے ضلع جنوبی کی جانب روزانہ سفر کرنے والے لوگوں کی ترجیحی گزرگاہ ہے۔

ایک ٹوٹا ہوا گندا نالہایک ٹوٹا ہوا گندا نالہ

مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ اکثروبیشتر سیوریج کا پانی گٹروں سے ابل پڑتا ہے اور جہانگیر روڈ کے دو رویہ ٹریک پر پھیل جاتا ہے جس سے گاڑیوں کی نقل و حرکت آہستہ ہو جاتی ہے اور پھر ٹریفک جام کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ چھ مہینوں میں اس راستے کو دو مرتبہ تعمیر و مرمت کیا جا چکا ہے۔ پہلی مرتبہ عامر لیاقت حسین نے وفاقی حکومت کے فنڈ سے اس کی تعمیر کرائی تھی اور دوسری مرتبہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے اسے نئے سرے سے بنایا تھا لیکن یہ ابھی بھی ہمیشہ کی طرح ٹوٹی پھوٹی ہے۔

رضی الدین کہتے ہیں کہ اس سڑک کی خراب حالت کے باعث کوارٹروں میں رہنے والے لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق گاڑیوں والے لوگ اس سے بچنے کے لیے مارٹن کوارٹرز اور کلیٹن کوارٹرز کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کے لیے ٹریفک حادثات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 کے رہائشیوں کو بھی ایسا ہی مسئلہ درپیش ہے۔ جنوب میں محمود آباد نامی پسماندہ علاقے اور شمال میں شاہراہ فیصل کے درمیان پھنسے ہوئے اس محلے میں سیوریج کے پائپ اکثر بند رہتے ہیں جس کے باعث یہاں مسلسل بڑی مقدار میں گندا پانی جمع ہوتا رہتا ہے۔ مقامی رہائشی نعمان شاہ کہتے ہیں کہ ''صوبائی یا وفاقی حکومت نے یہاں نکاسی آب کا مسئلہ حل کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی''۔ نتیجتاً جب کبھی بارش ہوتی ہے تو سیوریج کا گندا پانی گھروں میں آ جاتا ہے جس سے فرنیچر اور گھریلو تنصیبات خراب ہو جاتی ہیں۔ 

نعمان شاہ نے 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کی وفاقی حکومت نے ان کے علاقے میں کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا۔ اسی لیے حالیہ ضمنی انتخاب میں وہ خود اور اس علاقے کے دیگر رہائشی کسی اور جماعت کو ووٹ دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔  

این اے-245 کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے طور پر حصہ لینے والے معید انور بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس حلقے میں شہری سہولتوں کی صورتحال پہلے ہی بہت خراب تھی لیکن حالیہ بارشوں نے اسے بدتر کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میں انتخابی مہم میں جہاں کہیں بھی جاتا ہوں لوگ گٹر ابلنے، پینے کے صاف پانی کی کمیابی، سڑکوں کی خستہ حالی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کی شکایت کرتے ہیں۔ ان حالات میں میرے لیے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا قدرے مشکل ہو گیا ہے''۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.