زمیں بنجر نہ دانہ ہے نہ پانی: 'ہم اسی امیدوار کی حمایت کریں گے جو نہری پانی کی قلت کا مسئلہ حل کرائے گا'۔

آصف ریاض

تاریخ اشاعت 12 اکتوبر 2022

فلک شیر نے رسیوں اور ٹیپوں کی مدد سے اپنی موٹر سائیکل کے مختلف حصوں کو آپس میں باندھ رکھا ہے۔ اسی ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل پر 28 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے وہ 26 سمتبر 2022 کی دوپہر جنوبی پنجاب کے شہر خانیوال میں واقع پاکستان مسلم لیگ نواز کے ضلعی دفتر پہنچے ہیں۔ 

اس روز اس دفتر میں بڑی گہماگہمی ہے کیونکہ یہاں سے چوہدری ضیاالرحمان کی انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے جو شہر کے شمال مشرق میں واقع پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-209 میں چند روز بعد ہونے والے ضمنی انتخاب کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار ہیں۔ فلک شیر ان سے مطالبہ کرنے آئے ہیں کہ 15 ایل نامی نہر سے انہیں ان کے حصے کے پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ 

وہ پی پی-209 میں شامل گاؤں 79-15 ایل میں رہتے ہیں جہاں وہ تین ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں۔ اس اراضی سے ہونے والی آمدنی سے وہ اپنے آٹھ افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت کرتے ہیں جس میں ان کی بیوی، تین بچے، دو بوڑھے والدین اور ایک چھوٹی بہن شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رواں سال انہوں نے دو ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی تھی لیکن چند ہفتے پہلے انہیں یہ فصل صرف اس لیے تلف کرنا پڑی کہ نہر کا پانی نہ ملنے سے اس کی بڑھوتری رک گئی تھی۔ 

15 ایل نہر سے سیراب ہونے والے ایک اور گاؤں کے زمین دار رشید احمد جوئیہ کو بھی یہی شکایت ہے۔ وہ ڈیرھ سو ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں اور کہتے ہیں کہ نہری پانی کی کمی کی وجہ سے ہر سال خریف (جون تا نومبر) کے موسم میں وہ اور ان جیسے کئی مقامی زمین دار اپنی 30 فیصد اراضی خالی چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس سال ستمبر کے تیسرے ہفتے میں خانیوال شہر کو میاں چنوں نامی قصبے سے جوڑنے والی قومی شاہراہ کے جنوب میں موجود بے شمار ویران کھیت ان کی بات کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 15 ایل نہر کے آخری سرے پر واقع 20 کے لگ بھگ دیہات میں رہنے والے سبھی کسانوں کو نہری پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ان دیہات کی مجموعی آبادی 60 ہزار کے قریب ہے جبکہ ان میں ووٹروں کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 78 اے-15 ایل نامی گاؤں کے زمیندار چوہدری محمد آصف اور 83-15 ایل نامی گاؤں کے رہنے والے نذر حسین کے مطابق اس علاقے کے تمام کاشت کاروں نے فیصلہ کیا ہے کہ 16 اکتوبر 2022 کو پی پی-209 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں وہ اسی امیدوار کو ووٹ دیں گے جو انہیں درپیش نہری پانی کی قلت دور کرائے گا۔ 

بنجر دھرتی، بنجر کھیت

15 ایل نہر میاں چنوں کے قریب ایک بڑی نہر، لوئر باری دوآب، سے نکلتی ہے اور پی پی-209 میں ختم ہوتی ہے۔ پنجاب کے محکمہ آب پاشی کے مطابق اس کی لمبائی 64 کلومیٹر ہے جبکہ اس سے 77 ہزار دو سو 26 ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے۔ 

تاہم مقامی کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ صرف اسی نہر کے آخری سرے پر پانی کی کمی نہیں بلکہ ضلع خانیوال میں بہنے والی تمام نہروں کا یہی حال ہے۔ زرعی زمین کی زرخیزی اور آب پاشی کے لیے استعمال کیے جانے والے پانی کے معیار کا جائزہ لینے کے لیے یہاں قائم کی گئی ایک سرکاری لیبارٹری کے تجزیات ظاہر کرتے ہیں کہ نہری پانی کی یہ قلت مقامی زمین کی پیداواری صلاحیت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

 نہری پانی کی کمی کے باعث جل جانے والی فصلیں نہری پانی کی کمی کے باعث جل جانے والی فصلیں

اس لیبارٹری کے اہل کاروں نے 2009 اور 2019 کے درمیان خانیوال کی زمین کے معیار کا مسلسل جائزہ لیا جس کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عرصے میں اس کی زرخیزی ہر سال کم ہوتی رہی ہے۔ اس جائزے کے مطابق 2009-10 میں مقامی زمین کے چھ ہزار چھ سو 93 نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 42 فیصد میں ضررساں نمکیات اور سوڈیم کی مقدار قابلِ قبول مقدار سے زیادہ تھی لیکن 2018-19 میں اس طرح کے ناقص نمونوں کی شرح 70 فیصد ہو چکی تھی۔ اس لیبارٹری کے سربراہ سید تنصیر حسین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سال میں یہ صورتِ حال اور بھی خراب ہو گئی ہے کیونکہ اب "معائنے کے لیے آنے والے 80 فیصد نمونے غیرمعیاری ثابت ہو رہے ہیں"۔ 

زرعی محققین کا خیال ہے کہ زمین کی زرخیزی میں اس تیزی سے آنے والی کمی کی بنیادی وجہ زرعی آب پاشی کے لیے استعمال ہونے والے پانی کا ناقص معیار ہے۔ ان کے مطابق نہری پانی کی قلت کے باعث بیشتر کسان ٹیوب ویلوں کی مدد سے زیرِزمین پانی نکال کر اپنے کھیت سیراب کر رہے ہیں لیکن اس پانی کا معیار اتنا خراب ہے کہ اس کے استعمال سے انہیں فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔   

ساؤتھ ایشیا ریسرچ جرنل آف بائیولوجی اینڈ اپلائیڈ بایو سائنسز نامی جریدے میں 17 مارچ 2022 کو شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں اس مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ خانیوال تحصیل میں (جس کا بڑا حصہ پی پی-209 میں شامل ہے) زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے والا زیر زمین پانی اس کے نواحی علاقوں کے زیرِزمین پانی کی نسبت زیادہ غیرمعیاری ہے۔ اس مقالے کے مطابق 2008 میں اس تحصیل کے زیرِزمین پانی کے 46 فیصد نمونے آب پاشی کے لیے غیر موزوں تھے لیکن 2018 میں یہ شرح بڑھ کر 48 فیصد ہوگئی تھی۔ اس کے مقابلے میں اس کے نواح میں واقع تحصیل ملتان میں انہی 10 سالوں میں یہ شرح 27 فیصد سے بڑھ کر 31 فیصد ہوئی ہے جبکہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں اس عرصے میں یہ 33 فیصد پر برقرار رہی ہے۔  

پنجاب میں فصلوں کی پیداوار کا تخمینہ لگانے والے سرکاری ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کے جاری کردہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ زمین کی زرخیزی کم ہونے کی وجہ سے ضلع خانیوال میں مختلف فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہو رہی ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق 1990 سے لے کر اب تک کپاس کی فی ایکڑ مقامی پیداوار میں 33 فیصد کمی آئی ہے جبکہ اسی عرصے میں پیاز اور لہسن کی فی ایکڑ مقامی پیداوار بھی بالترتیب 20 فیصد اور 38 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس انہی 32 سالوں میں خانیوال کے نواحی ضلع ملتان میں کپاس کی فی ایکڑ پیدوار میں کمی 17 فیصد رہی ہے جبکہ اس سے ملحقہ دوسرے ضلع لودھراں میں پیاز اور لہسن کی فی ایکڑ پیداوار میں 11 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ 

زرعی پیداوار میں اس کمی پر قابو پانے کے لیے خانیوال کی سرکاری لیبارٹری نے کاشت کاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی زمینوں کو نہری پانی اور بہتر معیار کے زیر زمین پانی سے سیراب کریں اور ان میں ایسی فصلیں کاشت کریں جو زیرِزمین نمکیات کی مقدار کو کم کرتی ہوں۔ لیکن 15 ایل نہر کے آخری سرے پر رہنے والے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ اچھے معیار کا زیرِزمین پانی تو کجا انہیں اپنے کھیتوں کے لیے مختص نہری پانی تک بھی رسائی حاصل نہیں رہی۔ 

پانی دو ووٹ لو

مقامی زمین دار چوہدری محمد آصف کا دعویٰ ہے کہ 15 ایل نہر میں پانی کی کمی قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے سیراب ہونے والی کچھ بااثر لوگوں کی زمینوں کو وافر مقدار میں پانی فراہم کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں اس کے آخری سرے پر موجود کاشت کاروں کو ان کے حصے سے کہیں کم پانی مل پاتا ہے۔ ان کے مطابق "ان بااثر لوگوں میں سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن بھی شامل ہیں جن کی سینکڑوں ایکڑ اراضی اسی نہر سے سیراب ہوتی ہے"۔ 

اسی طرح پی پی-209 کے ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اور سابق رکن پنجاب اسمبلی فیصل اکرم نیازی کی دو ہزار پانچ سو ایکڑ زرعی اراضی بھی 10 آر  نامی مقامی نہر سے سیراب ہوتی ہے جس کے آخری سرے پر رہنے والے کاشت کار بھی شکایت کرتے ہیں کہ اس پانی ان کی زمینوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔

خانیوال میں پاکستان مسلم لیگ نواز کا مرکزی دفترخانیوال میں پاکستان مسلم لیگ نواز کا مرکزی دفتر

تاہم ان کی انتخابی مہم کے کوارڈینیٹر فرخ بلال اس الزام کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں نہروں میں اس لیے کم پانی آتا ہے کہ پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دریائی بہاؤ میں اس کمی کی وجہ سے  "محکمہ آب پاشی والے نہروں میں بھی کم پانی چھوڑ رہے ہیں جس سے ان کے آخری سرے پر کاشت کاری کرنے والے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔ 

وہ اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں پانی کی قلت کے بارے میں کئی عوامی شکایات موصول ہوئی ہیں لیکن وہ ان شکایات کے ضمنی انتخاب پر ممکنہ اثرات کو  مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ "ایک انفرادی مسئلہ ہے جو چند کسانوں کو درپیش ہے۔ اس کا انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا"۔

دوسری طرف چوہدری آصف، فلک شیر اور نذر حسین جیسے نہری پانی کی قلت سے پریشان کئی کاشت کار کہتے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے فیصل اکرم خان نیازی کو ووٹ دیا تھا لیکن انہوں نے رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد "اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا"۔ اب، ان کے مطابق، پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار ضیاالرحمان نے "ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اسے حل کرانے کی کوشش کریں گے اس لیے ہم سب انہی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں"۔

برادری بمقابلہ جماعت: کیا پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار پیسے کے زور پر نیازی برادری کے اتحاد کو شکست دے پائیں گے؟

آصف ریاض

تاریخ اشاعت 12 اکتوبر 2022

مکھن خاں کا گھر سڑک کے کنارے واقع ہے اس لیے اس کے درودیوار پر لگے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی بینر اور جھنڈے دور دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ بینر اور جھنڈے انہوں نے خود نہیں بلکہ اس زمین دار نے لگائے ہیں جس کے کھیتوں میں وہ کام کرتے ہیں۔

ان کا تعلق مسلم شیخ برادری ہے جسے مقامی سماجی تقسیم میں سب سے نچلا درجہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کا گھر پنجاب کے جنوبی ضلع خانیوال میں واقع وریام ہراج نامی بستی کا حصہ ہے جہاں کل 70 گھرانے رہتے ہیں۔ ان میں سے 40 کا تعلق ہراج برادری سے اور 20 کا تعلق مسلم شیخ برادری سے ہے۔ باقی گھرانے دیگر بے زمین برادریوں کے ہیں۔

یہ بستی پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی-209 میں شامل ایک سو چھ دیہات میں سے ایک ہے۔ اس حلقے سے 2018 کے عام انتخابات میں فیصل اکرم خان نیازی پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کے طور پر رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے اِس سال انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے استعفے کی وجہ سے ہی یہاں 16 اکتوبر 2022 کو ایک ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔

مکھن خان یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ وہ اِس انتخاب میں کس کو ووٹ دیں گے۔ اس کے بجائے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وہ اس زمیندار کے بیٹے محمد شفیق ہراج کو بلا لاتے ہیں جس کے ہاں وہ کام کرتے ہیں۔ اِس نوجوان کا کہنا ہے کہ اس کی بستی نے اتفاق رائے سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فیصل اکرم خان نیازی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔  

تاہم جیسے ہی مکھن خاں دوبارہ اکیلے ہوتے ہیں تو وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہتے ہیں کہ ان کی برادری کے "کچھ لوگ پاکستان مسلم لیگ نواز کو ووٹ دینے کے خواہش مند ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ اس کا امیدوار کون ہے"۔

اس جماعت کے امیدوار چوہدری ضیاالرحمان واقعی اس حلقے میں نووارد ہیں اگرچہ ان کا خاندان پچھلے 20 سال سے ضلع خانیوال کی سیاست میں سرگرم ہے۔ ان کے ایک بھائی چوہدری افتخار نذیر اس وقت قومی اسمبلی کے رکن ہیں جبکہ ان کے دوسرے بھائی چوہدری عطاالرحمان پی پی-209 سے ملحقہ حلقے پی پی-210 سے پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔

برادری کی طاقت

درختوں کے جُھنڈ میں گھِرا وٹو کی جھال نامی لاری اڈا بستی وریام ہراج سے تین کلومیٹر مغرب میں لوئر باری دو آب نہر کے کنارے واقع ہے۔ یہاں سے ایک پختہ سڑک جنوب کو جاتی ہے جس کے کنارے لگے ایک بورڈ پر لکھا ہے کہ اسے دو سال پہلے فیصل اکرم خان نیازی نے بنوایا تھا۔

لاری اڈے پر چائے کی دکان چلانے والے 63 سالہ محمد عزیز کے مطابق یہ سڑک جن بستیوں سے گزرتی ہے ان میں "نیازی قبیلے کے لوگوں کی اکثریت ہے جو زیادہ تر اپنے ہم قبیلہ امیدواروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں"۔ فیصل اکرم خان نیازی کا اپنا گاؤں 30-10 آر بھی انہی میں شامل ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے لیے لگائے گئے پوسٹرزپاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے لیے لگائے گئے پوسٹرز

ان بستیوں کی انتخابی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چوہدری ضیاالرحمان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھ کر ان میں سے 22 کو انتہائی حساس قرار دینے کی درخواست دی ہے تاکہ انتخاب کے دن وہاں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے رینجرز یا فوج کو تعینات کیا جا سکے۔

فیصل اکرم خان نیازی کی انتخابی مہم کے کوآرڈینیٹر بلال فرخ کہتے ہیں کہ ان بستیوں سے ان کے امیدوار کو واضح برتری ملنے کی امید ہے۔ اپنی بات کے ثبوت کے طور پر وہ 2013 کی مثال دیتے ہیں جب فیصل اکرم خان نیازی نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا اور اس علاقے سے ملنے والے ووٹوں کے باعث 26 ہزار ایک سو 72 ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر آئے تھے۔

اُن انتخابات میں جیتنے والے امیدوار عبدالرزاق خان کا تعلق بھی مقامی نیازی قبیلے سے ہے۔ وہ 1985 سے انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں اور اس دوران تین بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے دو چچا محمد سیف اللہ خان عیسیٰ خیل اور خان بہادر غلام قادر خان پاکستان بننے سے پہلے ان کے آبائی علاقے میاںوالی سے پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ ان کے تیسرے چچا کرنل (ریٹائرڈ) محمد اسلم خان میانوالی سے ہی 1970 اور 1977 میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

عبدالرزاق خان کے دو بھائی عبدالرحمن خان اور عبدالحفیظ خان بھی مختلف ادوار میں میانوالی سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں جبکہ ان کی بہن ذکیہ شاہنواز پاکستان مسلم لیگ نواز کی پرانی رہنما ہیں اور کئی مرتبہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر پنجاب اسمبلی کی رکن رہ ہو چکی ہیں۔

فیصل اکرم خان نیازی اور عبدالرزاق خان 2018 کے انتخابات میں بھی ایک دوسرے کے مدِمقابل تھے۔ محمد عزیز کہتے ہیں کہ ان کے دیگر مخالفین کو توقع تھی کہ نیازی قبیلے کے ووٹ بٹ جانے سے انہیں انتخابی نقصان ہو گا۔ حقیقت میں یہ ووٹ تقسیم تو ہوئے اور ان دونوں نے نیازیوں کے دیہات میں ڈالے گئے 30 ہزار ووٹوں میں سے لگ بھگ بارہ بارہ ہزار ووٹ ہی لیے لیکن کوئی تیسرا امیدوار پھر بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حلقے کے دوسرے حصوں میں رہنے والے ووٹروں کی بڑی تعداد نے بھی انہیں دو امیدواروں کو ووٹ دیے۔

ایک مقامی سیاست دان  محمد جمیل شاہ اس امر کی توثیق کرتے ہیں۔ وہ 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے لیکن 2013 کے انتخابات میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا اور عبدالرزاق خان کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آئے تھے جبکہ 2018 میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے تیسرے نمبر پر آئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں فیصل اکرم خان نیازی کی کامیابی میں اہم کردار نائن ایل نامی نہر سے سیراب ہونے والے دیہات کے ووٹروں نے ادا کیا تھا جو ہمیشہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو ووٹ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق "اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کے سابق وزیرِاعلیٰ غلام حیدر وائیں نے ان کے بنجر اور ویران زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے  1990 اور 1993 کے درمیان یہ نہر بنوائی تھی"۔

ان کا خیال ہے کہ یہ ووٹر 16 اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی ہی حمایت کریں گے۔

تاہم دوسری طرف نیازی علاقے کے دونوں سیاسی گروہوں نے اتحاد کر لیا ہے اس لیے، محمد عزیز کے مطابق، انہیں ہرانا اب تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کی بنیاد ایک معاہدے پر رکھی گئی ہے جس کے تحت آنے والے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے اس حلقے سے فیصل اکرم خان نیازی ہی دونوں گروہوں کے متفقہ امیدوار ہوں گے جبکہ اسی علاقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب عبدالرزاق خان کے بیٹے ایاز خان نیازی لڑیں گے۔

فیصل اکرم خان نیازی کے انتخابی دفتر کے باہر لگے ہوئے مختلف پوسٹر اس بات کی تصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان پر لگی ایاز خان نیازی کی تصویر انتخابی امیدوار کی تصویر سے بڑی ہے اور اس کے نیچے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار ہوں گے۔

پی پی۔209 کے ایک قصبے میں کھڑا گندا پانی پی پی۔209 کے ایک قصبے میں کھڑا گندا پانی 

ایاز خان نیازی اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے خصوصی مشیر ہیں۔ وہ 2008 اور 2013 کے درمیان حکومت پاکستان کے زیر انتظام چلنے والی بیمہ کمپنی، نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ، کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔اس دوران ان کی مبینہ کرپشن کی خبریں بھی منظر عام پر آئیں جن کے نتیجے میں 2018 میں کراچی کی ایک احتساب عدالت نے انہیں سات سال قید کی سزا دے کر 10 سال تک عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ تاہم جنوری 2020 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر انہیں بری کردیا کہ ان کے خلاف پیش کیے گئے ثبوت ناکافی ہیں۔

ان کا نام پیراڈائز پیپرز میں بھی آیا تھا جن میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ان کے بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک ٹرسٹ اور تین آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جو سب 2010 میں اس وقت قائم کی گئیں تھیں جب ایاز خان نیازی نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے چیئرمین تھے۔ ان کے والد اور والدہ بھی ان چاروں کاروباری اداروں کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔

امیدوار مال مست، ووٹر حال مست

خانیوال شہر سے میاں چنوں جانے والی قومی شاہراہ کے جنوب میں واقع پی پی-209 کی حدود ضلع وہاڑی کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ اس میں کل دو لاکھ 58 ہزار ووٹر رہتے ہیں جن میں سے بیشتر آبادکار نیازیوں کے علاوہ ہراج، دادوآنہ، سیال اور راجپوت نامی مقامی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مزیدبرآں ان میں 1947 میں بھارت سے ہجرت کرکے آنے والی آرائیں، جاٹ، گجر اور دیگر برادریاں بھی شامل ہیں جبکہ شیعہ فرقے کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد بھی ان میں موجود ہے۔ اسی طرح 12 ہزار کے قریب مسیحی بھی اس حلقے میں رہتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی دفترپاکستان تحریک انصاف کا انتخابی دفتر

پی پی-209 بنیادی طور پر ایک دیہی اور زرعی علاقہ ہے اس لیے اس میں ہر جگہ کپاس، سبز چارے اور مکئی کی فصلیں نظر آتی ہیں تاہم کچا کھوہ نامی مقامی قصبے سے میاں چنوں جانے والی سڑک کے دائیں جانب کہیں کہیں خالی زمین بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس علاقے میں پانچ ایکڑ کے قریب اراضی ایسی بھی ہے جس میں کپاس کی سوکھے ہوئے پودے تو موجود ہیں لیکن ان پر نہ کوئی پتہ ہے اور نہ ہی روئی۔

ان اجڑے ہوئے کھیتوں کے قریب ہی ایک گھر بنا ہوا ہے جس کے باہر کچھ مویشی بندھے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک درخت کی چھاؤں میں رفیق احمد نامی ایک بزرگ چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں۔ وہ اس اراضی کے مالک ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کاشت کی گئی کپاس کی وجہ سے انہیں ایک لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے کیونکہ جولائی کے مہینے میں ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے اس پر ایسے کیڑے حملہ آور ہو گئَے تھے جو کسی بھی زہر کش دوا کے چھڑکاؤ سے ہلاک نہیں ہوئے۔

انہوں نے ضمنی انتخاب میں ووٹ دینے کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ نواز نے پیر محمد جمیل شاہ کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہوتا تو وہ یقیناً انہیں ووٹ دیتے کیوںکہ وہ ان کے عقیدت مند ہیں۔ لیکن ان کا خیال ہے کہ ان کے پسندیدہ امیدوار کو محض اس لیے ٹکٹ نہیں دیا گیا کہ ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کے لیے کروڑوں روپے موجود نہیں۔

تھوڑے سے توقف کے بعد وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے ضیاالرحمان کو اس لیے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے کہ ان کا خاندان زرعی ادویات بنانے والی ایک بڑی کمپنی کا مالک ہے جس نے،  ان کے بقول، "ادویات کی بوتلوں میں پانی بیچ بیچ کر ہماری فصلوں کو خراب کیا ہے"۔

ان کی بات اس حد تک درست ہے کہ یہ خاندان زرعی ادویات بنانے والے کاروباری ادارے، الہ دین گروپ، کا مالک ہے جو، پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی لمیٹڈ کی فروری 2020 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں زرعی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والے پانچ سب سے بڑے نجی اداروں میں شامل ہے۔

ان کے مدمقابل امیدوار فیصل اکرم خان نیازی کا خاندان بھی اسی کاروبار سے وابستہ ہے (اگرچہ اس کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن زراعت اور زرعی اجناس کی تجارت ہے)۔ اس کی زرعی ادویات بنانے والی کمپنی، ایلیور (Allure)، زیادہ بڑی تو نہیں لیکن مقامی لوگوں کے مطابق اس کی مصنوعات خانیوال اور اس کے گردونواح میں بڑی مقدار  میں استعمال کی جاتی ہیں۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.