اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی عدم موجودگی: 'کماہاں کی ہر ہزار خواتین میں سے صرف 32 کے پاس بی اے/بی ایس کی ڈگری ہے'۔

آصف ریاض

تاریخ اشاعت 15 جولائی 2022

محمد شہروز ہر صبح اپنی دو بہنوں کو اپنے گھر سے موٹر سائیکل پر بٹھا کر 15 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر تے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک سرکاری کالج میں چھوڑ سکیں۔ چھٹی کے بعد وہ انہیں اسی طرح واپس لے کر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کام میں ان کا اتنا وقت صرف ہوجاتا ہے کہ وہ کوئی اور کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے۔ 

لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ 

وہ لاہور کے جنوبی سرے پر واقع کماہاں نامی بستی کی بٹ کالونی میں رہتے ہیں۔ ان کے گھر سے ماڈل ٹاؤن میں واقع کالج تک کوئی سرکاری یا نجی بس نہیں جاتی اور نہ ہی، ان کے مطابق، ان کے خاندان کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کے لیے رکشا یا ٹیکسی کا بندوبست کرسکیں کیونکہ اس کے لیے انہیں کم از کم 15 ہزار روپے ماہانہ چاہئیں۔

ان کی عمر 32 سال ہے اور وہ ایک فری لانس فوٹو گرافر کے طور پر کام کرتے ہیں جبکہ ان کے والد اپنے گھر کے قریب ہی پان سگریٹ کی دکان چلاتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ دونوں مل کر ایک مہینے میں 30 ہزار روپے سے زیادہ نہیں کما پاتے۔ لہٰذا ان کا سوال ہے کہ "اگر اس میں سے آدھے پیسے ہم رکشا یا ٹیکسی کے کرائے میں دے دیں تو پھر ہم گھر کے دوسرے اخراجات کیسے پورے کریں گے"۔ 

بٹ کالونی 2013 میں کسی قسم کی منصوبہ بندی کے بغیر زرعی زمین پر بنائی گئی تھی۔ یہاں رہنے والے پرویز حسین بٹ یہاں کے سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل اربابِ اقتدار کے سامنے رکھنے میں خاصے سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے محلے کے آس پاس لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا ایک بھی سرکاری ادارہ موجود نہیں چنانچہ مقامی لڑکیوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ دور دراز محلوں میں واقع کالجوں میں جا کر تعلیم حاصل کریں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "ان کے والدین ان کی آمدورفت پر آںے والے اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے وہ میٹرک کے بعد تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں"۔ 

یہی وجہ ہے کہ دو سو 78 مقامی گھرانوں میں سے صرف محمد شہروز کے خاندان  کی لڑکیاں کالج جاتی ہیں حالانکہ، پرویز حسین بٹ کے مطابق، یہاں "کم از کم 25 مزید ایسی لڑکیاں موجود ہیں جنہوں نے پچھلے دو سالوں میں میٹرک کیا ہے"۔ 

ان میں ثمر ثاقب کی دو بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خاوند محمد ثاقب لاہور کے انار کلی بازار میں کپڑے کی ایک دکان پر کام کرکے 25 ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں جس سے پانچ افراد پر مشتمل ان کے کنبے کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس مالی صورت حال کی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کو کئی کلومیٹر دور کسی کالج میں بھیجنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

ایک اور مقامی باسی عابد خان کہتے ہیں کہ بٹ کالونی میں گھر گھر کی یہی کہانی ہے۔ ان کے مطابق ان کے بڑے بھائی جاوید خان کی دو بیٹیاں اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کرنے کے باوجود اس لیے مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکیں کہ سرکاری کالج ان کے گھر سے بہت دور ہے۔ 

کالج بناؤ ووٹ لو

بٹ کالونی پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی-168 کا حصہ ہے جہاں 17 جولائی 2022 کو ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پس ماندہ محلوں کی سٹرکیں اور گلیاں تنگ اور ٹوٹی پھوٹی ہیں اور ان میں گندے پانی کی نکاسی کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ متعدد مقامی بستیوں میں گیس بھی نہیں ہے۔ 

لیکن اس حلقے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرانا چاہتے ہیں کیونکہ پونے چار لاکھ آبادی والے اس پورے حلقے میں لڑکیوں کے لیے ایک بھی ہائیر سکینڈری سکول یا سرکاری کالج نہیں۔ 

سرکاری اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی غیرموجودگی میں مقامی لڑکیاں کس طرح لاہور کے دوسرے علاقوں میں رہنے والی لڑکیوں سے بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق کماہاں کے علاقے میں (جہاں پی پی-168 کی 74 فیصد آبادی رہتی ہے) ہر ہزار مقامی خواتین میں سے محض 32 ڈگری یافتہ ہیں۔ اس علاقے میں میٹرک یا اس سے زیادہ تعلیم کی حامل خواتین کی کل تعداد 21 ہزار چھ سو 68 ہے جس میں سے صرف چار ہزار ایک سو 84 ایسی ہیں جن کے پاس بی اے/بی ایس کی ڈگری ہے۔ دوسرے لفظوں میں میٹرک پاس کرنے والی ہر سو مقامی خواتین میں سے محض 19 ڈگری کی سطح تک تعلیم حاصل کر پاتی ہیں۔ 

اس کے مقابلے میں پورے لاہور میں یہ شرح 32.57 فیصد ہے جبکہ ماڈل ٹاؤن تحصیل (جس میں کماہاں بھی شامل ہیں) میں یہ شرح 36.77 فیصد ہے۔ 

پرویز حسین بٹ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق دوںوں اس علاقے سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ نہیں دی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ ان کی بستی والوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ اسی امیدوار کو ووٹ دیں گے جو پی پی-168 میں لڑکیوں کا کالج بنانے کا حلفیہ وعدہ کرے گا۔ ان کے مطابق انہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار ملک اسد کھوکھر کو اپنے اس مطالبے سے آگاہ کر دیا ہے اور انہوں نے جواباً  کالج قائم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ 

ملک اسد کھوکھر کے ساتھ ان کے سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والے ملک عامر محمود بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس دفعہ حلقے کے رہنے والے لوگوں کی طرف سے کالج بنانے کا مطالبہ کافی شدت سے سامنے آ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک اسد کھوکھر نے اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے بھی بات کی ہے "جنہوں نے یقین دہانی کرائی ہےکہ انتخابات کے بعد جتنی جلدی ہوسکا اس علاقے میں مقامی لڑکیوں کے لیے ڈگری کالج بنا دیا جائے گا"۔

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.