قراقرم ہائی وے پر گلگت بلتستان جانے والے لوگوں کے لئے کوہستان سے گزرنا آسان نہیں ہوتا۔ سفر کے اس مرحلے میں انہیں کئی ندی نالے عبور کرنا پڑتے ہیں۔ اگر ان میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہو تو پُل ٹوٹنے اور راستے بند ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ اس کے علاوہ ہے اور دونوں صورتوں میں یہ مسافر اس علاقے میں پھنس جاتے ہیں۔
پچھلے سال جولائی میں کوہستان کے برساتی نالے پر اُچھار کے مقام پر واقع پُل پانی میں بہتے ملبے کے دباؤ سے ٹوٹ گیا تھا۔
اس دوران گلگلت بلتستان کا ملک بھر سے زمینی رابطہ کٹ گیا اور اپر کوہستان کی تحصیل کندیا اور ہربن کو غذائی قلت سمیت بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس واقعے کے بعد دو ہفتوں کی کوشش سے نالے پر لوہے کا پل نصب کر قراقرم ہائی وے کو بحال کر دیا گیا۔ لیکن یہ انتظام عارضی ثابت ہوا کیونکہ اگست کے وسط میں تیز بارشوں کے دوران پانی کا بہاؤ بڑھتے ہی یہ پل دوبارہ دریا برد ہو گیا۔
اس دوران داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی عملے کا کیمپ اور گاڑیاں بھی پانی میں بہہ گئیں جنہیں نکالنے میں انتظامیہ کو کئی ماہ لگے۔
اس سال اپریل اور مئی کے آخری دنوں میں بھی اس نالے پر لوہے کے دو پل ٹوٹ چکے ہیں۔
باون سالہ سید نیت علی شاہ پچھلے سترہ برس سے ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ناٹکو) کے ساتھ بطور ڈرائیور کام کر رہے ہیں۔
ان کا تعلق گلگت کے علاقے غذر سے ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ اس راستے پر گلگت کی جانب سفر کے دوران جیسے ہی انہیں آسمان پر بادل دکھائی دیں تو انہیں یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ نجانے آگے کوہستان میں کیسے حالات ہوں گے، کہیں لینڈ سلائیڈنگ یا اُچھار نالے میں سیلاب سے راستے بند نہ ہو گئے ہوں؟
"ایسی صورتحال میں ہمیں اپنی ذات سے زیادہ پریشانی بس کے ان 40 مسافروں کی ہوتی ہے جنہیں ہمیں بحفاظت ان کی منزل تک پہنچانا ہوتا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ ہو جائے تو چٹانوں کے ٹکڑے اور پتھر پھسل کر گرنے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔ ایسے کئی واقعات میں ہمارے سامنے متعدد لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔"
پل بہنے یا لینڈ سلائیڈںگ کے نتیجے میں راستے بند ہونے سے خاص طور پر ایسے مریضوں کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے جنہیں علاج کے لئے دوسرے علاقوں میں لے جانے کی ضرورت ہو۔ چند ماہ پہلے جیجال نامی علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑک بند ہونے سے ایک مریض مقامی ہوٹل میں ہی دم توڑ گیا تھا۔
نیت علی کا کہنا ہے کہ اُچھار نالہ اس روٹ پر سفر کرنے والے لوگوں کے لئے درد سر بن گیا ہے۔
اس کا پُل چھ ماہ میں کئی مرتبہ بہہ چکا ہے اور کئی بار انہیں راستہ بحال ہونے کے انتظار میں کئی دن اس علاقے میں رکنا پڑا۔
ایک اور ڈرائیور نے بتایا کہ عید الفطر سے دو دن قبل جب وہ اس راستے پر سفر کر رہے تھے تو پانی کے تیز بہاؤ میں اُچھار نالے کا عارضی پل بہہ گیا۔
اس دوران کئی گاڑیوں کے سیکڑوں مسافروں کو دو دن اسی ویران علاقے میں ٹھہر کر مدد کا انتظار کرنا پڑا۔ان مسافروں میں بچے، بوڑھے، خواتین اور بیمار لوگ بھی شامل تھے جنہیں بہت سی تکالیف جھیلنا پڑیں۔
اس راستے پر سفر کرنے والے لوگ اُچھار نالے کا پُل بار بار بہہ جانے کا ذمہ دار یہاں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور دیامر بھاشا پراجیکٹ کی انتظامیہ اور محکمہ واپڈا کو ٹھہراتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر داسو پراجیکٹ کی تعمیر کے نتیجے میں نکلنے والا ملبہ دریائے سندھ اور قریبی ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے جس سے ان کی گہرائی جا بجا کم ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً پانی کا بہاؤ بڑھتا ہے تو اس میں شامل ملبہ پلوں کو بہا لے جاتا ہے۔
قراقرم ہائے وے پاکستان کو چین سے ملاتی ہے اور یہ سی پیک کا سپلائی روٹ بھی ہے۔ اس کے قریب ساڑھے چار ہزار میگا واٹ کے داسو اور دیامر بھاشا پاور پراجیکٹ بجلی کی پیداوار کے دو بڑے منصوبے ہیں۔
داسو ڈیم کا 50 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ دیامر بھاشا ڈیم کا کام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
گلگت بلتستان کے علاقے استور سے تعلق رکھنے والے 49 سالہ محمد شبیر ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ناٹکو )کے لئے کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہاں نہ تو کبھی لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی اور نہ ہی ندی نالوں میں تواتر سے سیلاب آتے تھے۔
"جب سے دونوں ڈیموں پر کام شروع ہوا ہے تو ٹرانسپورٹروں اور مسافروں کے مسائل بھی بڑھ گئے ہیں"۔
سوات یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بتاتے ہیں کہ جب دریاؤں اور ندی نالوں میں ملبہ جمع ہو جاتا ہے تو ان کے بند یا پل پانی کے بڑے بہاؤ کو برداشت نہیں کر پاتے جو پلوں کو بہا لے جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پانی میں موجود ریت مٹی اور ملبہ بہتا ہوا ڈیموں میں پہنچ جاتا ہے اور جب اس کی مقدار مخصوص حد سے تجاوز کر جائے تو ڈیم ٹوٹنےکا خطرہ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
دشوار راستے، دشوار تر زندگی: شانگلہ کی ندی پر بنے نامکمل پل سے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت محدود
انہوں نے تربیلا ڈیم کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ مٹی اور ریت نے اس ڈیم میں پانی کے ذخیرے کی گنجائش کم کر دی ہے۔
بالائی علاقوں سے روزانہ پانچ لاکھ ٹن گاد تربیلا سمیت دیگر ڈیموں میں شامل ہو جاتا ہے جس سے مستقبل قریب میں انہیں سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
واپڈا کے ڈائریکٹر جنرل برائے عوامی رابطہ، رانا محمد عابد پلوں کو ہونے والے نقصان کی وجہ ملبے کو نہیں سمجھتے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سیلاب کے بعد واپڈا نے ایک سروے کیا اور رپورٹ مرتب کی تھی جس میں پتہ چلا تھا کہ سطح سمندر سے تین ہزار میٹر بلندی پر گلیشیر پھٹنے سے پانی کے بہاو میں اضافہ ہوا تھا جس سے دریا میں بڑے بڑے پتھر آئے تھے، ملبہ کی وجہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ داسو پراجیکٹ کے ایچ ون اور ٹو کے ساتھ بن رہا ہے اسی لئے ملبہ کو دریائے سندھ میں نہیں دریا کے کنارے میں ڈالا جاتا ہے۔ اس سے دریائے سندھ میں موجود آبی حیات کو نقصان نہیں ہوا۔ اس کے حوالے سے احتیاط کی جارہی ہیں۔
تاریخ اشاعت 6 جولائی 2023