الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 27 نومبر کو اعتراضات دور کیے جانے کے بعد حلقہ بندیوں کی جو حتمی فہرست جاری ہوئی، اس نے خیبر پختونخوا کے شمال میں واقع ضلع شانگلہ میں موجود سیاسی اور سماجی حلقوں کو نہ صرف حیرانی میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ سیاسی پارٹیاں، امیدواروں کو پہلے جاری کیے گئے ٹکٹ واپس لینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
ابتدائی حلقہ بندیوں کے بعد الطاف حسین ایڈو کیٹ کو عوامی نیشنل پارٹی نے چکیسر اور بشام کے مشترکہ حلقہ پی کے 28 کے لیے ٹکٹ جاری کیا تھا، جس کے لیے انہوں نے مہم کا آغاز کیا اور بینرز بھی چھپوالیے تھے، مگر 28 نومبر کو جاری حتمی فہرست میں چکیسر کو بشام سے نکال کر مارتونگ اور پورن کے ساتھ شامل کر دیا گیا، جہاں پہلے سے ہی سابق ایم پی اے فیصل زیب کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا جاچکا تھا۔
نتیجتاً الطاف حسین انتخابات کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔
الطاف ایڈوکیٹ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے گاؤں چکیسر کو تینوں حلقوں میں یوں تقسیم کیا گیا ہے کہ یونین کونسل سرکول کو پی کے 28 شانگلہ ون، یونین کونسل اوپل کو پی کے 30 شانگلہ تھری میں ڈالا گیا اور باقی تحصیل کو پی کے 29 میں شامل کیا گیا ہے، مقامی حلقوں نے اسے تاریخی ظلم اور علاقے کے ساتھ دشمنی قرار دیا ہے جبکہ اس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہو گا۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ 29 نومبر کو پورے چکیسر بازار میں لوگ اس فیصلے کے خلاف اُمڈ آئے اور مسلم لیگ نواز کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک سازش کے تحت ان کے علاقے کو تقسیم کیا گیا ہے۔ حالانکہ چکیسر کے لوگوں نے پورے ملاکنڈ ڈویژن میں واحد سیٹ پی ایم ایل ن کے لیے نکالی تھی اور بخت عالم خان کو تحصیل چیئرمین بنایا گیا تھا۔
مسلم لیگ نوازکے صوبائی صدر امیر مقام کا تعلق تحصیل پورن کے گاؤں چاگم سے ہے، جبکہ ان کا خاندان چاگم، سندوی اور سنیلہ میں رہائش پذیر ہے۔
اگرچہ پورن، تحصیل الپوری یعنی مرکزی حلقہ، پی کے 30 سے 50 کلومیٹر دور ہے جو پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے مگر ان علاقوں کو الیکشن کمیشن نے حتمی فہرست (فارم سات) میں پی کے 30 میں شامل کر دیا ہے۔
اب امیر مقام جو اسی حلقہ یعنی پی کے 30 سے صوبائی اور ممکنہ طور پر این اے 11 کے قومی حقلے سے خود الیکشن میں حصہ لینے جارہے ہیں (دونوں حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے ہیں)، ان کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی اس تبدیلی کے بعد جیتنا آسان ہو گیا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سابق ایم این اے ڈاکٹر عباداللہ قومی نشست پر امیدوار بن کر سامنے آئیں، اس تبدیلی سے ان کے چانسز بھی بڑھ گئے ہیں۔
اسی حلقہ میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سینئر نائب صدر شوکت یوسفزئی کی جانب سے بھی انتخابات لڑنے کا امکان ہے۔ اُن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد ہائی کورٹ الیکشن ٹریبونل کی جانب سے منظور کیے جا چکے ہیں۔ وہ پی کے 28 اور پی کے 30 دونوں سے متوقع اُمیدوار ہیں۔ اس حلقہ میں مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کا سخت مقابلہ متوقع ہے، تاہم پورن تحصیل کے پی کے 30 میں شامل ہونے کے بعد تحریک انصاف کی مشکلات بڑھنے کا امکان ہے۔
پی کے 29 پر مسلم لیگ نواز میں اختلافات اور سابق ایم پی اے فضل اللہ (پیر محمد خان کے صاحبزادے) کے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑںے اور بعدازاں مسلم لیگ نواز اور جمعیت علماء اسلام (ف) سے اتحاد کرنے کے بعد اس حلقے میں پی ٹی آئی، جے یوآئی ف اور اے این پی کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
انہی مسائل کو لے کر مقامی رہنماؤں نے پشاور، اسلام آباد ہائی کورٹس اور الیکشن کمیشن اسلام آباد میں حقلہ بندیوں کے خلاف اپیل دائر کی مگر عدالت نے کیس کو الیکشن کمیشن منتقل کر دیا۔
پشاور اور اسلام آباد ہائی کورٹس کی ہدایات پر الیکشن کمیشن کی پانچ رکنی کمیٹی (چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ، نثار احمد درانی، شاہ محمود جتوئی، بابر حسین بروانہ اور جسٹس ریٹائڑ اکرام اللہ خان) نے متعلقہ کیس سنا اور حتمی فیصلہ سنایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 20 کے رو سے حلقہ بندیوں کو اُصولوں کے مطابق جاری کیا گیا ہے اور اس میں کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
اس طرح حتمی فہرست کو نہ صرف برقرار رکھا گیا بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ 30 نومبر 2023 کو جاری فارم سات ہی کو حتمی فہرست تصور کیا جائے۔
تحصیل چکیسر کے معززین نے مختلف جرگوں کے بعد 24 دسمبر کو تحصیل بار ایسوسی ایشن کی نگرانی میں معززین علاقہ کا گرینڈ جرگہ کیا، جس میں مسلم لیگ نواز سے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
شانگلہ: کیا آئندہ عام انتخابات میں خواتین کے ٹرن آؤٹ کا مسئلہ حل ہو پائے گا؟
علاقے کے سماجی رہنما اور آزاد اُمیدوار برائے پی کے 29، مشرف شاہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ عدالت اور الیکشن کمیشن نے تو ان کی بات نہیں سنی، مگر ان کے پاس یہ اختیار تھا کہ مسلم لیگ نواز بالخصوص امیر مقام کا بائیکاٹ کیا جائے۔
"گرینڈ جرگہ میں مسلم لیگ نواز کے واحد تحصیل چیئرمین جنرل سیکرٹری بخت عالم خان بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے شیر عالم خان، اے این پی کے الطاف حسین، شیر علی، پی ٹی آئی کے نواز خان اور دیگر علاقہ معززین نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ن لیگ اور امیر مقام کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
انہوں نے دعوٰی کیا کہ حلقہ بندیوں میں تبدیلی کی درخواستیں امیر مقام کے لوگوں نے ہی دی تھیں، جس سے تحصیل چکیسر کو بری طرح تقسیم کر دیا گیا تاکہ چکیسر سے کوئی اُمیدوار جیت نہ سکے اور ووٹ تقسیم ہو جائے۔
جے یو آئی ف اور ن لیگ کی شانگلہ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اعلان کے دوران، سابق ایم این اے امیر مقام کے بھائی اور لیگی رہنما ڈاکٹر عباداللہ سے حلقہ بندیوں میں ترامیم کے الزام اور ن لیگ کے بائیکاٹ کے جرگے کے فیصلے کے بارے میں سوال پر انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یہ الزام صرف ان کی مخالف پارٹیاں لگا رہی ہیں، عوام ان کے ساتھ ہیں اور ان ہی کو ووٹ دیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدر امیر مقام اور پی ٹی آئی کے صوبائی سینئر نائب صدر اور سابق وزیر شوکت یوسف زئی کی آبائی نشستوں کی وجہ سے سیاسی حلقوں کی ضلع شانگلہ پر گہری نظر ہے اور انتخابات کے دن قریب آنے کے بعد انتہائی سرد موسم کے باوجود سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔
تاریخ اشاعت 13 جنوری 2024