کولئی پالس کوہستان شانگلہ کی عدالت میں 22 مارچ کے دن ایک مبینہ ملزم کو فائرنگ سے قتل کر دیا گیا۔ قتل اس وقت کیا گیا جب پولیس جالکوٹ کی جیل سے اس ملزم کو عدالت میں پیشی کے لیے لائی تھی۔
قتل کی اس واردت کو فیس بک پر کئی لوگوں نے لائیو دیکھا کیونکہ عدالت کے احاطہ میں موجود کچھ افراد نے وقوعہ کو فیس بک لائیو چلا دیا تھا۔
وائرل ہوئی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص زمین پر پڑا ہے جبکہ لوگ مدد کے لیے ایک دوسرے کو پکار رہے ہیں۔
دوسری جانب پولیس فائرنگ کرنے والے شخص کو حراست میں لے لیتی ہے۔
اس واقعے نے عدالت کی سیکورٹی پر بھی کئی سوالات اُٹھا دیئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی خطے میں موجود کولئی پالس، کوہستان کا انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے۔
قتل کے پس پردہ کہانی
بشام تحصیل کے سب ڈویژنل پولیس آفیسر، جمعہ الرحمن نے لوک سجاگ کو بتایا کہ تین ماہ قبل کولئی پالس کوہستان کے علاقے پارو کے رہائشی سعید الرحمن کی بیوی اپنے پانچ بچوں کو چھوڑ کر نظام الدین کے ساتھ چلی گئی تھی۔
سعید الرحمن نے ان دونوں کے خلاف تھانہ کوز پارو میں 365 بی کے تحت مقدمہ درج کروا دیا۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا تھا جس کے بعد عدالت نے نظام الدین کو جالکوٹ جیل اور خاتون کو دارلامان بھیج دیا تھا۔
"مقتول اور خاتون اس مقدمے میں جیل سے ضمانت نہیں کروانا چاہتے تھے، کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ جیل سے باہر جانے پر ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔"
کیس کی پیشی کے دن ممکنہ خطرے کے پیش نظر خاتون کو ویڈیو لنک کے ذریعے سننے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مقتول نظام الدین کو پانچ افراد کی نفری کے ساتھ بشام عدالت لایا گیا۔
"جیسے ہی نظام الدین عدالت کے احاطے میں پہنچا، ملزم سعید الرحمن نے پستول سے نظام الدین پر فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ نظام الدین کو بشام ہسپتال اور پھر ایبٹ آباد منتقل کیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔"
ایس ڈی پی او جمعہ الرحمن مزید بتاتے ہیں ملزم نے عدالت میں اگلے ہی دن اقبال جرم کر لیا اور یہ بیان دیا کہ نظام الدین اس کا چور تھا۔ (کوہستان میں چور ایسے فرد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا کسی عورت کے ساتھ تعلق ہو، کوہستان میں ایسے فرد کو قتل کرنا قابل تعریف عمل سمجھا جاتا ہے۔)
ایس ڈی پی او مزید بتاتے ہیں یہ کام ایک فرد تنہا نہیں کرتا بلکہ اکثر کیسز میں قاتلوں کے پیچھے مقامی مشران جسے یہ لوگ جرگہ کا نام دیتے ہیں، ان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔
تھانہ پالس کے ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’نظام الدین کے قتل کے بعد میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس عورت کی جان بھی خطرے میں ہے۔ کیونکہ وہ عورت سعید الرحمن کی سگی چچازاد بھی ہے۔ جب ملزم نے نظام الدین پر فائرنگ کی اس وقت اس عورت کے سگے بھائی بھی اس کے ساتھ موجود تھے، اور یقینا اب وہ اسے قتل کرنے کے در پے ہوں گے۔"
بشام پولیس سٹیشن کے محرر عمران اللہ نے لوک سجاگ کو بتایا پولیس ملزم سعید الرحمن کے ساتھ واردات میں شامل اس کے کزن عبدالستار کی گرفتاری کی کوشش کر رہی ہے۔ کیس کا چالان جلد عدالت میں جمع کروا دیا جائے گا۔
ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کولئی پالس کوہستان جو کئی سالوں سے کوہستان کے تینوں اضلاع میں ڈیوٹی انجام دیتے آ رہے ہیں نے لوک سجاگ کو بتایا، جب غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو یہ سب ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے۔
"بیشتر واقعات میں فریقن بیٹھ کر فیصلہ اور عہد کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف نہ گواہی دیں گے اور نہ ہی تھانہ کچہری جائیں گے۔ اس لئے کوہستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات کو عدالتوں میں ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں بھی خاتون کے بھائی اس کے سابقہ شوہر کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حالانکہ ایسے کیسز میں ریاست مدعی ہوتی ہے۔
"عینی شاہدین اکثر گواہی نہیں دیتے یا ان کی گواہی کمزور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے کیس کمزور ہوتے ہیں، متعلقہ افراد پراسییکیوشن میں تعاون نہیں کرتے، یوں ملزمان رہا ہو جاتے ہیں۔"
عدالت میں پستول کیسے اندر گیا؟
ایس ڈی پی او جمعہ الرحمن بتاتے ہیں کہ کولئی پالس تھانے میں مبینہ طور پر ملزم سعید الرحمان کا بھائی، کانسٹیبل بھرتی ہے۔ وہ شک کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس واردات میں مبینہ طور پر کولئی پالس تھانے کے پولیس افسران نے سہولت کاری کی ہے۔ اسی لئے پستول احاطہ عدالت میں لایا جا سکا۔
"ہم نے اعلیٰ حکام کو خط بھی تحریر کیا ہے تاکہ کولئی پالس کے ان افسران کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جا سکے۔"
میاں سفیر ایڈوکیٹ، نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ غیر ت کے نام پر قتل کے حوالے سے 2016ء میں کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 299 اور 302 میں ترامیم کی گئیں اور غیرت کے نام پر یہ قتل بھی فساد فی العرض کے زمرے میں آنے لگا ہے اور قاتل کو پہلے کی طرح کوئی چھوٹ نہیں ملتی۔
"ایسے کیسز میں پولیس کی تحقیقات کا کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ تفتیشی افسران عینی شاہدین کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کر پاتے اور کیس کمزور ہو جاتا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ اب ایسے کیسز میں فریقین کے مابین راضی نامہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود زیادہ تر کیسز میں گھر کا ہی کوئی فرد ضد کر کے مدعی بنتا ہے جو آخر میں یا تو قاتل کو معاف کر دیتا ہے یا گواہی ہی نہیں دیتا۔
"اس حوالے سے البتہ عدالتوں کا موقف قدرے سخت ہوتا ہے، پولیس اگر تفتیش میں کوئی کمی نہ چھوڑے تو ملزمان کو دفعہ 302 کے تحت سزائے موت یا دفعہ 311 کے تحت عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔"
ہیومن رائٹس واچ کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔
عورت فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں چار صوبوں اور گلگت بلتستان کے 25 اضلاع میں خواتین کے خلاف تشدد کے دو ہزار 297 رپورٹ ہوئے۔جن میں سے پنجاب میں 57 فیصد، سندھ میں 27 فیصد، خیبر پختونخوا میں 8 فیصد، گلگت بلتستان میں 6 اور بلوچستان میں 2 فیصد کیس رپورٹ ہوئے، تشدد کے واقعات کی بڑی اقسام میں قتل، اغوا، عصمت دری اور غیرت کے نام پر قتل سرفہرست ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کیا عدالتی نظام کی کمزوری سے کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل دوبارہ بڑھے ہیں؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2012ء سے 2018ء کے دوران خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل کے 448 واقعات ہوئے جن میں 284 مرد اور 369 خواتین کو قتل کیا گیا۔
محمد رفیق ایڈوکیٹ بشام کے سینئر قانون دان ہیں نے بتایا کہ کولئی پالس کوہستان کی عدالت میں زیادہ تر فوجداری مقدمات آتے ہیں جن میں ذاتی دشمنی اور خواتین سے متعلقہ کیسز شامل ہوتے ہیں۔ عدالت کی سیکورٹی پر بات کرتے ہوئے محمد رفیق ایڈوکیٹ نے کہا، انہوں نے واقعہ کے بعد سول جج سے گزارش کی ہے کہ وہ عدالت کی سیکورٹی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
ثمر من اللہ، خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز اُٹھانے والی سماجی کارکن اور فلم میکر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ خیبر پختونخوا اور کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل میں اضافے کی بڑی وجوہات میں سماجی، ثقافتی اور مذہب کی غلط تشریحات شامل ہیں۔
"نام نہاد راویات میں عورت کو کمزور، بے کار اور کم تر سمجھا جاتا ہے۔ جب کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے تو زندگی بھر اس کے خاندان والے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور اسے قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔"
وہ کہتی ہیں کہ اس حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایسے ملزمان بری نہ ہوں وگرنہ وہ باہر آ کر زندہ بچ جانے والے فریق کی بھی جان لینے سے نہیں چوکتے۔
تاریخ اشاعت 5 اپریل 2024