شانگلہ میں اپنڈکس کے مریضوں کی بڑھتی تعداد: 'یوں محسوس ہوا کوئی خوفناک وبا گھروں میں اتر آئی ہے'

postImg

عمر باچا

postImg

شانگلہ میں اپنڈکس کے مریضوں کی بڑھتی تعداد: 'یوں محسوس ہوا کوئی خوفناک وبا گھروں میں اتر آئی ہے'

عمر باچا

بشام میں پولیس سٹیشن کالونی کے چوالیس سالہ اسماعیل خان کے لیے فروری کا آخری ہفتہ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ ان دنوں ان کی اہلیہ، دو بیٹیوں اور بھائی کو پیٹ میں ایک جیسی تکلیف کے باعث آپریشن کرانا پڑے اور اسماعیل کا پورا ہفتہ ہسپتالوں کے چکر لگاتے گزرا۔

22 فروری کو اسماعیل کی اہلیہ نے پیٹ کے دائیں جانب شدید درد کی شکایت کی جس کے بعد انہیں قے آنا شروع ہو گئی۔ اسماعیل انہیں بشام کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں اپنڈکس ہے اور آپریشن کے بغیر صحت یابی کی امید میں ایک دن کی دوائیں دے کر رخصت کر دیا۔

ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ اگر دواؤں سے آرام نہ آیا تو ان کا آپریشن کرنا ہو گا کیونکہ اس بیماری میں آنت پھٹنے کا خدشہ ہوتا ہے جس سے مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔

اہلیہ کی طبعیت میں بہتری نہ آئی تو اگلی صبح اسماعیل انہیں ایک نجی ہسپتال لے گئے جہاں پندرہ ہزار روپے کے عوض ان کا آپریشن ہوا۔ ابھی ان کی سرجری کو بارہ گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ اسماعیل کی بڑی بیٹی کو بھی یہی تکلیف شروع ہو گئی۔ جب انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے فوری آپریشن کا مشورہ دیا۔ اس طرح چوبیس گھنٹوں میں ان کے گھرانے کے دو افراد کے آپریشن ہو چکے تھے۔

دو روز کے بعد اسماعیل کے پڑوس میں مقیم ان کے بڑے بھائی کو بھی اسی تکلیف کے باعث آپریشن کروانا پڑا اور اُسی شام اسماعیل اپنی دوسری بیٹی کو لے کر ہسپتال کی جانب بھاگ رہے تھے۔

اسماعیل کہتے ہیں کہ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی خوفناک وبا ان کے گھروں میں اتر آئی ہے۔

''ایک سال پہلے بھی ہمارے خاندان کے دو افراد نے اپنڈکس کے آپریشن کرائے تھے۔ اب کے یہ معاملہ صرف ہمارے گھروں تک ہی محدو د نہیں بلکہ چند روز کے دوران تین ہمسایوں کو بھی یہی آپریشن کرانا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری پینے کے پانی سے لاحق ہو رہی ہے لیکن اس کی اصل وجہ سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔''

بشام ٹاؤن کے ستائیس سالہ طالب علم جواد زیب کے گھر میں بھی ایک ہی دن میں اپنڈکس کے دو آپریشن ہوئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر ان کے خاندان میں 14 افراد یہ آپریشن کرا چکے ہیں جن میں سات سے چودہ سال عمر کے بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ ان میں بعض لوگوں نے صحت کارڈ کے تحت جبکہ باقی نے نجی ہسپتالوں سے علاج کرایا۔

جواد زیب کے علاقے میں بہت سے دیگر لوگوں کو بھی اپنڈکس کی تکلیف ہے یا وہ اس کا علاج کرا چکے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ یہ بیماری پینے کے پانی سے لاحق ہوتی ہے۔ ان کا خاندان پچھلے ساٹھ سال سے ایک ہی چشمے کا پانی استعمال کر رہا ہے جسے وہ صحت کے لئے محفوظ سمجھتے ہیں۔

بشام میں اس مسئلے کی شدت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ راوں سال کے پہلے تین ماہ میں یہاں کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں اپنڈکس کے 336 آپریشن ہو چکے ہیں۔ ان میں ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں صحت کارڈ کے تحت کئے جانے والے 114 آپریشن بھی شامل ہیں۔ بہت سے آپریشن ایسے بھی ہیں جو صحت کارڈ کے بغیر کرائے گئے ہیں۔ ہسپتال میں متعلقہ اہلکاروں کی عدم موجودگی کے باعث ان کی تفصیلات دستیاب نہیں ہو سکیں۔

عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ڈاکٹر واجد علی کہتے ہیں کہ اپنڈکس کوئی ایسی بیماری نہیں جو ایک سے دوسرے کو فرد منتقل ہو سکے اور نہ ہی یہ کوئی وائرس ہے، تاہم کسی علاقے میں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہو جائے تو اس کی فوری تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔

ڈاکٹر واجد نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے جب وہ شانگلہ کے محکمہ صحت میں کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے تعینات تھے تو خدنگ نامی علاقے کے ایک ہی محلے میں اپنڈکس کے 31 مریض سامنے آئے جنہوں ںے آپریشن کروائے تھے۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ ان میں سے 28 مریضوں کے آپریشن سوات کے ایک ہی ڈاکٹر نے کئے تھے۔

<p>علاقے میں اپنڈکس کے مریضوں کی بڑھتی تعداد پر فوری تحقیقات ہونا ضروری ہیں<br></p>

علاقے میں اپنڈکس کے مریضوں کی بڑھتی تعداد پر فوری تحقیقات ہونا ضروری ہیں

مزید تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ جس ہسپتال میں یہ آپریشن کئے گئے تھے اس نے ایک مقامی اتائی (بابو) کے ساتھ کمیشن طے کر رکھا تھا جو ہر مریض کو آپریشن کے لئے اس ہسپتال میں بھیج دیتا تھا۔ انکوائری کے بعد ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔

ڈاکٹر واجد کا کہنا ہے کہ بشام میں اپنڈکس کے مریضوں کی تعداد میں حالیہ اضافہ حیران کن ہے جس کی تحقیقات کے لیے محکمہ صحت کو ایک ٹیم بنانی چاہئیے تاکہ مسئلے کی جڑ تک پہنچا جا سکے۔

تحصیل الپوری کے علاقے پیر آباد سے تعلق رکھنے والے اڑتالیس سالہ سالہ شیریں زادہ کے گھر میں ایک ہی ہفتے کے دوران چار بچوں کے آپریشن ہوئے ہیں اور ان سب میں اپنڈکس کی تشخیص کی گئی تھی۔ ان بچوں کی عمر سات سال سے لیکر بارہ سال کے درمیان ہیں جن میں دو شیریں زادہ کے بچے اور دو ان کے بھتیجے ہیں۔ یہ چاروں آپریشن سوات کے علاقے مٹہ میں قائم شفا ہسپتال میں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اگر ملیریا پھیل رہا ہے تو یہ 'مالک کی مرضی' ہے: تحصیل جوہی میں ملیریا کی وبا سے تین ماہ میں 100 سے زیادہ اموات

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال شانگلہ اور نجی ہسپتال ایمان میڈیکل کمپلیکس کے سینئر سرجن ڈاکٹر کامران خان نے اوپل، لیلونئی اور پورن کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے تین خاندانوں کے ایسے آٹھ مریضوں کا خود معائنہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں اپنڈکس کے مریضوں کی غیرمعمولی تعداد پر کوئی باقاعدہ تحقیق نہیں ہوئی۔

"جب ایک ہی خاندان سے کئی مریض سامنے آئے تو مجھے بھی حیرانی ہوئی۔ میں نے اوپل اور پورن کے ایک ایک مریض کو میڈیکل ٹرائل پر رکھ لیا۔ تاہم اگلے دن ان کی حالت بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئی اور ان دونوں کے آپریشن کرنا پڑے۔''

اپنڈکس کے مریضوں کی تعداد میں اس اضافے کی وجوہات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جن گھروں میں ایسے مریض سامنے آتے ہیں انہیں اپنی خوراک اور پینے کے پانی کے ذرائع پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ تاہم ضروری نہیں کہ لوگوں کو یہ تکلیف خوراک اور پانی سے ہی لاحق ہو رہی ہو۔ اس بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہے۔

تاریخ اشاعت 28 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمرکوٹ سانحہ: "خوف کے ماحول میں دیوالی کیسے منائیں؟"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

کشمیر: جس کو سہارے کی ضرورت تھی، آج لوگوں کا سہارا بن گئی

خیبر پختونخوا: لاپتہ پیاروں کے قصیدے اب نوحے بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا کی ماربل انڈسٹری کے ہزاروں مزدور بیروزگار کیوں ہو رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبدالستار

تھر کول منصوبہ: 24 ارب رائیلٹی کہاں ہے؟

thumb
سٹوری

بحرین کے لوگ مدین ہائیڈرو پاور منصوبے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

فنکار آج بھی زندہ ہے مگر عمر غم روزگار میں بیت گئی

thumb
سٹوری

رحیم یارخان مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا ساجن ملوکانی کون تھا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: مقامی لوگ ہجرت کریں گے، چشمے سوکھ جائیں گے مگر بجلی گھر بنے گا

thumb
سٹوری

تھرپارکر: کیا نان فارمل ایجوکیشن سنٹر بچوں کو سکولوں میں واپس لا پائیں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

ڈاکٹر شاہنواز کے قاتل آذاد ہیں اور انصاف مانگنے والوں پر تشدد ہورہا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.